کسان نہ تو دہشت گرد ہے اور نہ ہی غدار بلکہ وہ اس دیس کا
ان دا تا ہیں
محمد شمیم حسین ۔ کولکاتا
کہتے ہیں کہ صحافی اپنے قلم سے تلوار کا کام لیتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ کسانوں نے اپنے ٹریکٹر سے توپ کا کام لیا ہے۔ جی ہاں یوم جمہوریہ 26 جنوری 2021 کو جو کام کسانوں نے کیا ہے۔ وہ ما ضی میں آزادی سے قبل یا بعد ہندوستان میں کبھی نہیں دیکھا گیا۔ تین زرعی قوانین اصلاحات کو واپس لینے کے لیے ہزاروں کی تعداد میں نہیں بلکہ لاکھوں کی تعداد میں کسان حکومت کے خلاف تحریک چلا رہے ہیں۔ اس زرعی بل کے خلاف جو راتوں رات حکومت نے چور دروازوں سے بغیر اسٹینڈنگ کمیٹی سے بل پاس کر واے اور کسان لیڈر وں سے بات چیت کے بغیر طاقت کے زور پر پارلیمنٹ میں بل پاس کروا کر قانون کے دائرے میں لے ائی۔ شروع سے ہی کسان حکومت ان تینوں بلوں کی مخالفت کرتے رہے۔ 25 نومبر 2020 سے کسان دلی باڈر پر دھرنے پے ہیں ۔گیارہ دور کی بات چیت نہ مکمل رہی۔ پا ر لیمنٹ سے کچھ ہی دور دھرنے پے یہ کسان سڑکوں پر ٹھنڈ کے موسم میں ٹھٹھرا رہے ہیں۔ لیکن حکومت پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہے۔ اور نہ ہی اس بل کو رد کرنا چاہتی ہے ۔ معاملہ سپریم کورٹ تک جا پہنچا۔ حالانکہ یہ معاملہ سپریم کورٹ تک جانا ہی نہیں چاہیے تھا۔ یہ معاملہ کسان تنظیم اور حکومت ہند کے درمیان تھا۔
25 جنوری تک عدم تشدد بھرا تحریک چلتا رہا۔ لیکن 26جنوری کو کچھ بھاڑے کے ٹٹو نے اس تحریک کو ختم کرنے کے لیے تشدد پر آمادہ ہو گئے۔ جس میں پولیس اور مظاہرین کے درمیان جم کر پتھر بازی ہوئی۔ ایک طرف پولس لال قلعہ سے ان لوگوں کو نکال رہی تھی۔دوسری طرف پولس لاٹھی چلا رہی تھی۔ اپنے بچاؤ میں مظاہرین پتھر چلانے شروع کر دیئے۔ پولیس نے حالت کے نزاکت کو سمجھتے ہوئے اس موقعہ پرایک راؤنڈ بھی گولی نہیں چلائی۔ ان جگہوں پر آنسو گیس اور لاٹھی چارج کا معاملہ سامنے آیا ۔جس میں تقریبا پانچ سو سے زائد پولیس والے زخمی ہوئے ۔ جبکہ ہزاروں مظاہرین بھی پولیس کے لاٹھی چارج کا شکار ہوئے۔ سینکڑوں کسانوں کو حراست میں لیا گیا۔ کسان تنظیموں کا کہنا ہے کہ اب تک سیکڑوں کسان لا پتہ ہیں۔ ایسا لگ رہا تھا اب کسان تحریک خاتمہ کے طرف رواں دواں ہے۔ بس چند ہی گھنٹوں میں یہ تحریک دم توڑ دے گی۔ لیکن بی جے پی لیڈر اور ورکرز
لا ٹھی اور دیگر ہتھیاروں کے ساتھ سڑکوں پر اتر آئے اور کسانوں کو سبق سکھانے کے لیے ان پر حملہ کر دیے ۔
دلی پولیس نے بارڈر نہ صرف سیل کردیا بلکہ اس طرح سے گھیرا بندی کی کے مانو ا ب دلی میں جنگ ہونے والا ہے۔ بارڈر پر جس طرح سیکورٹی مہیا کرائی جاتی ہے ۔اسی طرح دلی کے بارڈر پر دلی پولیس اور بی ایس ایف کے جوانوں نے گھیرا بندی کر لی۔تا کہ کوئی بھی شخص بارڈر تک نہ پہنچ سکے۔ 27 اور 28 جنوری کو سینکڑوں کسانوں کو گرفتار کیا گیا۔ ان پر ایف آئی آر درج کی گئی۔ چھ سے زائد کسان لیڈروں کے خلاف ایف آئی آر د ر ج کی گئی۔ کئی صحافیوں کو بھی گرفتار کیا گیا۔ اور کچھ کسان مظاہرین کو بھی گرفتار کر کے جیل میں ڈال دیا گیا۔ اس کے بعد کسان اپنے کسان لیڈروں کے سمجھنے کے بعد چار بجے تک لال قلعہ سے نکل کر جانے لگے ۔ اس وقت کچھ پولیس والوں نے کئی جگہوں پر لاٹھی برسائی۔ ذرائع سے ملی خبر کے مطابق ان مظاہرین پر پولس والے برس پڑے ۔ راکیش ٹکیت نے صبر کا پیمانہ چھلکنے نہ دیا اور انہوں نے روتے ہوئے کہا کہ حکومت ہمیں اپنا دشمن سمجھ رہی ہے۔ اور پولیس کے علاوہ دوسرے تنظیم کے لوگوں سے ہم پر جان لیوا حملہ کر و ا رہی ہے۔
انہوں نے یہاں تک کہا کہ
بی جے پی اور آر ایس ایس کےغنڈ ے
ان پر جان لیوا حملہ کر رہے ہیں ۔تاکہ تحریک کو ختم کیا جا سکے ۔ اس کے بعد انہوں نے کہا کہ جب تک ہمارے گاؤں کے لوگ ہمیں پانی نہیں پلا ے گے ۔ میں یہاں سے اٹھنے والا نہیں ہوں۔ یہ اندازِ بیاں اس تحریک کو ایک نئی روح پھو نک دی۔ جو کسانوں کے لئے ہم در دی کا سیلاب لے کر آیا۔ وہیں دوسری طرف بالکل جیتی ہوئی با زی BJP ہار گئ۔ پھر بھی حکومت ٹس سے مس نہ ہوئی ۔تحریک کا آج 77 /واں دن ہے۔ لیکن نہ تو کسان اور نہ ہی حکومت اپنے فیصلہ سے پیچھے ہوئی۔ حکومت بیچ کا کوئی راستہ نکالنا چاہتی ہے ۔ ایسا نہیں لگتا ۔بی جے پی لیڈروں اور RSS پرچارکوں کو یہ احساس ہونے لگا کہ پانی سر سے اوپر ہو گیا ہے۔ حکومت کو پہلی بار شکست خو ردا حکومت کی طرح دیکھا جانے لگا۔ اس وقت دلی کو فوجی چھاؤنی میں تبدیل کر دیا گیا۔ صرف یہی نہیں کسان کسی طرح دلی میں داخل نہ ہو سکے۔ اس کے لئے راستہ کاٹ ڈالا گیا کھدائی کی گئی تاکہ گاڑیوں کی آمدورفت نہ ہو سکے ۔ اس کے بعد بات یہیں ختم نہیں ہوئی بلکہ کسانوں کو مجبور کیا گیا کہ وہ سڑک خالی کردے ۔ کسان جب یہ نہیں مانے تو حکومت پانی اور بجلی کی سپلائی بند کر دی۔ اس کے بعد ٹوائلٹ بھی بند کر د ی گئی ۔ معاملہ طول نہ پکڑے اور دنیا اصلیت نہ جان پائے اس کے لیے حکومت ہند نےانٹرنیٹ پر لگا م لگا دی۔ انٹرنیٹ کی سہولت بھی ختم کر ڈالی دلی پولس اور حکومت نے تا کہ کسانوں کے حرکات و سکنات دنیا کے سامنے نہ آسکے ۔لیکن تحریک اس قدر زور پکڑ نے لگی اس کے بارے میں بی پی،
آئی ٹی سیل کو اندازہ نہیں ہوا کہ وہ لوگ کیاسوچ رہے تھے۔ تحریک دم توڑ دیں۔ اسی طرح بجلی پانی بند کرکے کے ان کسانوں پر دباؤ بنایا گیا۔ اور وہ گھر لوٹنے پر مجبور ہو جائیں گے۔ اگر تھوڑے بچ بھی گئے تو پولیس کے ڈنڈے سے وہ خود بخود بھاگ جا یں گے۔ لیکن کسانوں نے بھی قسم کھائی کہ ہم بل واپس کراکے ہی اپنے گھروں کو واپس جائیں گے۔ ورنہ ہم یہیں دم توڑ دیں گے۔ پنجاب ہریانہ اور دہلی کے کسان جب متحد ہونے لگے تو حکومت بہت بے چین ہوگئ۔ کسانوں کی تحریک کو کمزور کرنے کے لیے طرح طرح کے پروپیگنڈہ کرتی رہی۔کہ کسان اس تحریک سے خود کو علیحدہ کر لیا ہے ۔ دوسری طرف سے کسانوں کے لئے حکومت کے لیڈران الگ الگ بیان دینے لگے۔ کسی نے کہا یہ کسان نہیں دہشت گرد ہیں ، کسی نے پاکستانی، کسی نے نکسلی اور کسی نے اسے بیرون ملک کے دہشت گرد قرار دیا ۔ کسانوں کو غدار کہا جانے لگا۔ حکومت فیصلہ نہیں کر پا رہی ہے اور نہ ہی وہ جھکنا چاہتی ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ زرعی قانون کو حکومت فائدہ کا سودا قرار دے رہی ہے۔ اور دوسری طرف سرکاری اثاثہ فروخت کرتی جا رہی ہے۔ حکومت چند لوگوں کو خوش کرنے کے لئے ایک سو تیس کروڑ لوگوں کو غلامی میں دھکیلنے جا رہی ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ ایسا لگ رہا ہے جیسے کسانوں اور حکومت کے درمیان جنگ چھڑ گئی ہو۔ آزادی کے بعد یہ پہلا موقع ہے جب کسی تحریک کو روکنے کے لیے دلی کا بارڈر بند کرنے کے لیے راستہ خدا گیا۔ ڈر یہ ہے کہ کہیں کسان پارلیمنٹ پر قبضہ نہ کر لیے۔ کہتے ہیں کہ جب حکومت کو لگتا ہے کہ وہ خطرے میں ہے تو سب سے پہلے وہ قلعہ بندی کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے ہے کہ حکومت دلی ، غا ز یہ باد اور ٹیکری بارڈر پر قلعہ بندی کر رکھی ہے۔ پوری دنیا اس خبر سے با خبر ہے کہ ہندوستان کے کسانوں کو، حکومت نے پانی سپلائی روک دی۔ بجلی کا ٹ دی۔ کھا نے پینے کے سامان مہیا نہیں کروائے۔ جس طرح سے انگریزوں نے اپنے دور میں ہندوستان کے وطن پرستوں کو کو پانی اور کھانا نہیں دیا۔ انہیں جیل میں اذیت دی۔ ان پر طرح طرح کے ظلم کی ۔ گرم تیل میں انہیں اس لئے ڈال دیا کیونکہ ان کی زبان پر انقلاب زندہ باد کا نعرہ تھا ۔ہر جمہوری ملک میں لوگوں کو اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کرنے سے کوئی قانون اور حکومت نہیں روک سکتی ہے۔ لیکن ہندوستان واحد ملک ہے جہاں برسراقتدار بی جے پی کی حکومت ان کسانوں کو کو آواز اٹھانے پر سختی برت رہی ہے۔ ایسا لگ رہا ہے ہم آج بھی غلامی کے دور میں جی رہے ہیں۔ آزاد ملک میں رہتے ہوئے ہم غلامی کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ کسانوں کے ساتھ
نا انصافی پر كوئی آواز بلند کرتا ہے تو انہیں کہا جاتا ہے کہ یہ ملک کا اندرونی معاملہ ہے۔ اس پر کوئی نہ بولے۔ سوال یہ ہے کہ کوئی کیوں نہ بولے ۔ آپ کسانوں پر ظلم ڈھائے اور یہ کسان خاموش رہے ۔یہ مسئلہ صرف کسانوں کا نہیں بلکہ ملک کے نوے کروڑ سے زائد عوام کا مسئلہ بھی ہے ۔ ایک دن آئے گا جب سب کچھ مہنگا ہو جائے گا۔ ایم ایس پی گا ر نٹی نہ ہونے کی وجہ سے بیس روپے کا چیز دو سو روپے میں خرید نے ہوں گے۔ تب پتا چلے گا کہ کسان اس بل کی مخالفت کیوں کر رہے تھے۔ ملک کے اثاثہ جسے لوٹ کر برطانیہ حکومت کو دیتے رہے اسی طرح انہی کے نقش قدم پر بی جے پی حکومت ملک کا اثاثہ پونجی پتیوں کو سونپ رہی ہے ہے ۔تاکہ وہ برسوں اس ملک میں حکمرانی کر سکے۔ 23سے زائد سرکاری کمپنیاں BJP حکومت نے محض چھ سالوں میں نجکاری کرکے کے کمیشن کا پیسہ لے کر یہ لوگ ملک چھوڑ کر نیرو مودی، وجے ملیہ کی طرح دیوالیہ کر کے بیرون ملک میں جا بیٹھیں گے۔ تاکہ انہیں کوئی گرفتار نہ کر سکے ۔ آپ کو یاد ہوگا 2014 لوک سبھا
ا لیکسن سے پہلے بی جے پی نے ایک نعرہ دیا تھا کہ اگر وہ حکومت میں آگئے تو مودی کووجے مالیہ کو گرفتار کرکے ہندوستان واپس لائیں گے۔ اور صرف یہی نہیں انہوں نے بلیک منی لانے کی بھی بات کہی تھی۔ لیکن چھ سال گزر چکے ہیں نہ تو بلیک منی واپس آیا اور نہ ہی وہ چور واپس آیا جو ملک کے کروڑوں روپے لے کر فرار ہو گئے اور بیرون ملک میں عیس کے زندگی گزار رہے ہیں۔ ہندوستان کی معیشت اس وقت .7.5 منفی جی ڈی پی پر ہے ۔اگر یہی حال رہا تو ملک میں خط افلاس 40 فیصد کے بجائے 80 فیصد پر آ کر سمٹ جائے گی۔ جس ملک میں کسانوں کے ساتھ اس طرح ان دیکھا کیا جا نے لگے تو کیا اس ملک میں کوئی صنعت کار انڈسٹری لگانے کے لیے تیار ہوگا۔ BJP کی حکومت نے سات سال میں ایک بھی انڈسٹری نہیں
لگا یا ۔ لیکن اس دوران اس حکومت نے کم و بیس 23 /
سرکا ر ی کمپنیاں بیچ ڈالی اور مزید بیچنے کے فراق میں ہے ۔ آخر یہ کس کا اثاثہ حکومت فروخت کر رہی ہے۔ یہ کسی وزیر کا جائیداد نہی ہے۔ پھر فروخت کرنے کا حق ان کو کس نے دیا۔ حکومت کسانو ں کو گمراہ کر رہی ہے۔ اور اس بات پر جھوٹ بولے جارہے ہیں کہ 3 / کالے ز ر عي قانون سے کسانوں کا فائدہ ہوگا۔ تو کیا ملک کے عوام اور کسان اتنے بیوقوف ہیں کہ وہ اپنے پیروں پر خود کلہاڑی مار لیں گے۔ ۔ آگر حکومت جلد ایم ایس پی اور کنٹریکٹ فارمنگ کو ختم نہیں کر تی تو یہ تحریک، بہت جلد حکومت کو ختم کر۔دے گی۔ 2024 حکو مت کے لیے آخری موقع ہوگا ۔جب کسان اپنی جیت کو شکست میں بدل دیں گے ۔ کسان اگر ایک ہو گئے تو وہ BJP کو جڑ سے اکھاڑ پھینکیں گے ۔کیونکہ کسان یہ اچھی طرح سمجھ چکے ہیں کہ جو حکومت سبسڈی ختم کرسکتی ہے ۔وہ ایم ایس پی پر بھی قدغن لگا سکتی ہے۔ حکومت کے لیے یہ تین کالےقانون گلے میں اس ہڈی کی طرح ہو گئی ہے جو نہ نگلا جاتا ہے اور نہ ہی اگلا جاتا ہے۔ اس تحریک نے BJP لیڈروں کو اندر سے کھوکھلا کر دیا ہے ۔ اب تو وہ اندر کی بات کہنے سے ڈرتے ہیں۔ ملک میں اس وقت جو حال ہے اگر اس پر قابو نہ پایا گیا تو ممکن ہے کہ خانہ جنگی کا ماحول پیدا ہو جائے ۔ جمہوری ملک میں کسی بھی تحریک کو اس طرح طاقت کے زور پر روکا نہیں جا سکتا۔یہ ملک کے سالمیت کے لئے خطرہ ہے۔ کسانوں کی ٹریکٹر ریلی نے یقینا حکومت کو راتو ں کی نیند اڑ ا دی ہے۔ کسانوں نے کہا ہے کہ اگر حکومت ان کی بات تسلیم نہیں کرتی تو وہ آنے والے دنوں میں 40 لاکھ ٹریکٹر لے کر راستے پر اتریں گے اور دلی کے قلعہ کو فتح کریں گے۔ حکومت کو یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ کسان دہشت گرد نہیں اس ملک کے
ان د ا تا ہیں۔