بنگال کے اسمبلی انتخابات: عوامل اور امکانات
ڈاکٹر نوشاد مومن
مغربی بنگال اسمبلی انتخابات اپریل-مئی میں ہونے والے ہیں۔ 2019 کے لوک سبھا انتخابات میں غیر متوقع مظاہرہ کے بعد بھارتیہ جنتا پارٹی ایک طرف ترنمول کانگریس کو اقتدار سے بے دخل کرنے کے لئے ہر جائز اور ناجائز حربہ استعمال کر رہی ہے تو دوسری طرف مغربی بنگال کی وزیر اعلی اور ٹی ایم سی سپریمو ممتا بنرجی اپنے متعدد ترقیاتی کام ، بنگالی فخر اور اقلیتوں کی فلاح و بہبود کے نام پر اپنی حکمرانی بچانے کے لئے کمر بستہ نظر آرہی ہیں۔ جبکہ بایاں بازو اور کانگریس اتحاد کو امید ہے کہ وہ 2019 کی شکست کا بدلہ لیکر کچھ سیٹوں پر اپنی واپسی درج کرایں گے اور 2021 کے اسمبلی میں "کنگ میکر" ثابت ہوں گے۔ ہرچند کہ بی جے پی اور ٹی ایم سی دونوں ہی200 سے زاید سیٹیں حاصل کرنے کا دعوا کر رہی ہیں۔ لیکن مختلف چینل اور سوشل میڈیا اپنے سروے کی متضاد رپورٹ عوام الناس کے آگے پیش کر رہی ہیں۔ بہر حال نتائج کچھ بھی ہوں لیکن یہ حقیقت اپنی جگہ مسلم ہے کہ انتخاب دراصل امکانات کا کھیل ہے اور امکانات ان عوامل پر منحصر کرتے ہیں جو عوام کی ذہن سازی اور انکی سوچ و فکر کا رخ بدلنے میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔ سیاست داں اور سیاسی تجزیہ نگار کے پیش نظر متعدد ایسے عوامل ہیں جو رواں سال کے بنگال اسمبلی انتخابات میں بڑی اہمیت کے حامل ہیں۔ یہ وہ عناصر ہیں جو ریاستی انتخابات میں نہ صرف یہ کہ کلیدی کردار ادا کر سکتے ہیں بلکہ یہ اقتدار کی جنگ کا محور بھی ثابت ہو سکتے ہیں۔
اس ضمن میں متوقع وزیر اعلی ممتا بنرجی کا چہرہ اور ان کی غیر معمولی مقبولیت سب سے اہم اور پہلا عنصر ہے۔ جبکہ بی جے پی اور بایاں بازو - کانگریس اتحاد کے غیر متوقع چیف منسٹر امیدواروں کے مقابلے میں رائے دہندگان کے ذریعہ ممتا بنرجی رنگ ڈھنگ اور قول و فعل کا جائزہ لیا جائے گا۔ اس حوالے سے بی جے پی کی پاس ایسا کوئ مناسب اور معقول کوئ چہرہ نہیں جو ممتا بنرجی کی طرح کرشماتی ہو۔اور یہی بھاجپا کی سب سے بڑی پریشانی کا سبب ہے۔ اسی پر بس نہیں بلکہ بھاجپا اس شش و پنچ میں بھی مبتلا ہے کہ آیا پارٹی کو انتخاب میں اپنے متوقع وزیر اعلی امیدوار کا اعلان کرنا چاہئے یا نہیں؟ ۔ حالانکہ کچھ لوگ ہندوستانی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان سورو گنگولی سے متعلق چہ مگوئیاں کر رہے ہیں لیکن گنگولی نےاب تک نہ کوئ واضح اشارہ کیا ہے اور نہ ہی اپنے منصوبوں کا انکشاف کرکے سیاسی میدان میں کوئ گوگلی کی ہے ۔ یہاں غور طلب بات یہ ہے کہ 2014 سے 2019 کے درمیان بی جے پی نے نو ریاستوں میں کامیابی کے جھنڈے گاڑے ، جس میں صرف دو ریاست آسام اور ہماچل پردیش میں ہی اپنے متوقع چیف منسٹر چہرے کا اعلان کیا تھا۔جبکہ اترپردیش میں پارٹی کی سب سے بڑی فتح متوقع وزیر اعلی چہرے کے بغیر تھی۔ گویا اب تک کی پیش رفت اور حالات کے مطابق گمان ہے کہ مغربی بنگال کے انتخابات بھی بھاجپا متوقع وزیر اعلی چہرے کے بغیر لڑے گی اور وزیراعظم نریندر مودی کے نام پر ہی داو لگائے گی۔اس طرح مودی بمقابلہ ممتا سیاسی جنگ ہونا تقریبا طے ہے۔ جس میں فوقیت بہر طور ممتا بنرجی کو ہی ملنے کا قوی امکان ہے۔
سیاسی جنگ کا دوسرا اہم عنصر ووٹروں کی سطح اطمینان ہے۔ اس زمرے میں حکومت کی متعدد فلاحی اسکیم, صحت ، تعلیم ، روزگار ، معیشت ، امن و امان وغیرہ شامل ہیں۔ جس کی روشنی میں ٹی ایم سی کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے گا۔ اتنا ہی نہیں بلکہ اس بات کا بھی تجزیہ کیا جائے گا کہ ٹی ایم سی کا دور اقتدار کن امور پر بایاں بازو کی حکومت کے عین مطابق اور کن امور پر منفرد تھا۔ بالخصوص جب دوسری ریاستوں کے مقابلے میں بنگال کی کارکردگی کا مظاہرہ کیا جاتا ہے۔
تیسرا اہم عنصر "اپوزیشن اتحاد" ہے۔ بنگال میں حزب اختلاف کے دو اہم بلاکس ہیں۔ایک بی جے پی اور دوسرا بایاں بازو- کانگریس اتحاد ہے۔اس درمیان عباس صدیقی نے انڈین سیکولر فرنٹ تشکیل کرکے حکمراں جماعت کے ماتھے پر بل ڈال دیا ہے۔ ایسے میں بیشتر نشستوں پر سہ رخی اور کچھ نشستوں میں چہار رخی مقابلہ ہونے کا امکان ہے۔اگر حزب اختلاف کے ووٹوں کی تقسیم ہوئ تو ٹی ایم سی کو فائدہ ہوسکتا ہے- جیسا بہار میں عظیم جمہوری اتحاد کے ساتھ ہوا تھا۔
چوتھا عنصر ووٹ کاٹنے والا (ووٹ کٹوا) آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین ہے۔جس نے بہار کے حالیہ انتخابات میں کچھ سیٹوں پر کامیابی حاصل کی اور بیشتر سیٹوں میں عظیم اتحاد کے کھیل بگاڑ دیئے ہیں۔بنگال الیکشن کیلئے اے آئی ایم آئی ایم نے اعلان کیا ہے کہ وہ اقلیتوں سے متاثرہ 100 نشستوں پر مقابلہ کرے گی۔ اویسی کے فیصلے اور عباس صدیقی سے رابطے کے ساتھ ہی مسلم ووٹوں پر اجارہ داری کی لڑائی بھی دلچسپ موڑ پر آگئ ہے، جو بنگال کی کل آبادی کا 27 فیصد ہے۔ ایسی صورت میں اقلیت کے ووٹوں کا تقسیم ہونا عین ممکن ہے جس کا سیدھا نقصان حکومت وقت کو ہی ہوگا۔
پانچواں عنصر مختلف ذات پات کے ووٹرس ہیں جس کا فائدہ ممتا بنرجی نے2011 میں اور 2019 میں بی جے پی نے اچھی طرح اٹھایا ہے ۔ دونوں پارٹیوں نے بڑی حد تک طبقاتی(کلاس) لڑائ کو ذات پات پر مبنی انتخابات میں تبدیل کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ بی جے پی نے متوا سماج اور بھدرلوک پرتوجہ کرکے ایس سی-ایس ٹی کے30 فیصد ووٹ، او بی سی اور جنرل کے 40 فیصد ووٹ بینک کو متزلزل کردیا ہے۔ بنگال میں متوا سماج ایک ایسا طبقہ ہے جو 40-45 نشستوں پر کافی ہنگامہ کھڑا کرسکتا ہے۔ حا لانکہ متوا فرقہ ان دنوں دو حصوں میں منقسم ہے ۔ کوئ شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) پر سخت و سست پیشرفت سے نالاں ہے تو کوئ مستقل شہری حقوق دینے یا نہ دینے میں تاخیر کی وجہ سے بی جے پی سے ناخوش ہے۔
اینٹی انکیمبینسی چھٹا اہم عنصر ہے بنگال انتخاب کا۔ حالانکہ 2014 کے بعد ملک بھر کے اسمبلی انتخاب کا جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ تب سے اب تک 36 میں سے 9 ریاستی حکومتیں دوبارہ اقتدار میں آ گئیں۔ یہاں ووٹ کا مجموعی کم تناسب (ٹرن آؤٹ) اہم کردار ادا کرتا نظر آتا ہے۔ اگر مغربی بنگال میں پولنگ کا تناسب بہت زیادہ ہوتا ہے تو یہ کسی بڑی تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتا ہے۔
ساتواں عنصر "مودی فیکٹر" ہے۔ بی جے پی کو جیتنے کے لئے، اسے بایاں بازو کانگریس اتحاد اور ٹی ایم سی سے زیادہ ووٹ لانے کی ضرورت ہے۔ ’ڈبل انجن سرکار‘ کہانی بنانے ' خواب دکھانے اور خواب بیچنے کی بے پناہ صلاحیت مودی جی میں موجود ہے۔یہی وجہ ہے کہ تمام تر وعدوں کی بے خلافی کے باوجود مودی آج بھی ملک بھر کی سب سے مقبول شخصیت ہے۔ بنگال اور آسام انتخابات کے پیش نظر مودی نے اپنا حلیہ بدلا ہے اور خود کو بنگالی بھدرولوک کے سانچے میں ڈھال لیا ہے تاکہ انتخابات میں ووٹروں کے جذبات کا بہ آسانی استحصال کر سکیں۔ ممکن ہے یہی منصوبہ بی جے پی کی قسمت کا فیصلہ کرہے۔ نریندر مودی اپنی تقریروں میں یہاں تک کہہ سکتے ہیں کہ COVID-19 کی وجہ سے لوگوں کو جو معاشی پریشانی لاحق تھی اس کا اثر ریاست کے مالی معاملات پر بھی پڑا ہے۔ ان مشکل وقتوں سے گزرنے کے لئے مرکزی امداد کی اشد ضرورت ہے، جو آسانی سے مل سکتی ہے اگر عوام بھاجپا کو بنگال میں اقتدار کا موقع دیتے ہیں۔
آٹھواں سب سے اہم عنصر بنگال کی سیاست میں پولرائزیشن کا ہے۔ بایاں محاذ کے دور حکومت میں یہ نہ کے برابر تھا۔ لیکن ترنمول نے پہلے پہل اقلیت کے نام پر پھر اکثریت کے نام پر پولرائزیشن کا ماحول ہموار کیا ہے اسکا راست فایدہ بھاجپا اٹھانے پر لگی ہوئ ہے ۔حالانکہ حکومت نے جتنی اقلیت نوازی نہیں کی اس سے کہیں زیادہ مشتہر کیا ہے۔ جس کے اثرات اکثریت پر بھی پڑے ہیں۔لہذا اس موقعے کا فایدہ اٹھاتے ہوئے بی جے پی نے اپنی تمام تر قوت پولرائزیشن کے لئے جھونک دی ہے۔ اقلیتی تسکین یا اقلیت نوازی کے عنوان کو ٹی ایم سی سے منسوب کرکے اکثریت اور اقلیت میں دوریاں بڑھا دی ہیں۔حتی کہ مسلمان کو بنرجی کی حمایت میں ہونے کا ٹیگ لگا کر بنگال کی فرقہ وارانہ ہم آنگی کی فضا کو زہر آلود بنا دیا ہے، اس صورت حال میں بی جے پی کے ساتھ ہندو کی فرقہ پرست ذہنیت رکھنے والوں کا متحد ہونا اور بھاجپا کے حق میں رائے دیے جانے کا زیادہ امکان ہے۔
نواں قابل ذکر عنصر " بنگالی فخر " ہے۔ ٹی ایم سی نے بی جے پی کو شمالی ہندستانیوں کی ایسی جماعت کے طور پر ظاہر کررہی ہے جنہیں مغربی بنگال کی مضبوط اور توانا ثقافت اور ورثے کی نہ کوئی معلومات ہے اور نہ ہی انکے دلوں میں کوئی احترام ۔ اس مہم کی شروعات 'آمرا- اورا' یعنی اندرونی بمقابلہ باہری سے کر دی ہے۔ ترنمول کا یہ سیاسی حربہ بی جے پی کے ہندو قوم پرستی کا مقابلہ کرنے کے لئے علاقائی قوم پرستی کو نقصان پہنچائے گا یا فائدہ یہ پورے وثوق سے نہیں کہا جاسکتا ہے۔ تاہم بھدرولوک بنگالی کی نظروں میں بنگلہ زبان' بنگالی تہذیب اور بنگلہ ثقافت بڑی عزت و احترام اور اہمیت کی حامل ہیں۔
دسواں خطرناک عنصر ٹی ایم سی کی اندرنی بغاوت ہے۔ سووندھو ادھیکاری سمیت متعدد اراکین اسمبلی اپنے حمایتی کے ساتھ سے جس طرح ترنمول چھوڑ رہے ہیں اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ہوا مخالف چل رہی ہے۔ ادھیکاری بی جے پی کو جنوبی بنگال میں پیر جمانے میں کس حد تک مدد فراہم کرتے ہیں اس پر سب کی گہری نظر ہے لیکن ممتا بنرجی نے نندی گرام سے الیکشن لڑنے کا اعلان کرکے ادھیکاری کے حوصلے اور پلان کو چیلنج کر دیا ہے۔اسکے دو مقاصد ہیں پہلا ادھیکاری کو ایک حلقے میں باندھے رکھنا دوسرا پورے علاقے کی سیٹوں پر اپنا دبدبا قایم رکھنا ہے ۔ممتا بنرجی کی یہ حکمت عملی اگر کامیاب ہوتی ہے تو اقتدار پر وہ دوبارہ براجمان ہو سکتی ہیں۔