Random Posts

Header Ads

The immortal role of Maulana Azad as the Minister of Education

 
Maulana Azad as the Minister of Education

بحیثیت وزیر تعلیم مولانا آزاد کے لافانی کردار

The immortal role of Maulana Azad as the Minister of Education



۔(محمد شمیم حسین) مولانا آزاد کے یوم پیدائش کے موقع پرآج مولانا ابوالکلام آزاد فاؤنڈیشن فور ایجوکیشن اینڈ کلچرل کے جانب سے ایک پروگرام کا انعقاد کیا گیا ۔اس موقع پر مولانا آزاد کی تعلیمی ،علمی اور صحافتی اور سیاسی خدمات پر عالیہ یونیورسٹی کے وائس چانسلر محمد علی، اخبار مشرق کے مدیر اعلیٰ  وسیم الحق، اردو کے بزرگ شاعر و ادیب قیصر شمیم ، پروفیسر غلام سرور نے مولانا کے خدمات پر روشنی ڈالتے ہوئے پر مغز باتیں کہی۔  اس موقع پر شمیم قیصر کو ادب کے لیے،  وسیم الحق کو صحافت کے لیے، انڈین فلم ڈائریکٹر اور سنیماٹوگرافر گوتم گھوش اور آئی پی ایس مرلی دھر شرما کو مولانا ابوالکلام آزاد ایورڈ سے نوازا گیا۔  اگرچہ گوتم گھوش اور مرلی دھرطالب  اس پروگرام میں شریک نہ ہوسکے ۔لیکن اورگنایزر کو ان لوگوں نے نیک خواہشات کے ساتھ اپنا مکتوب بھیجا اور پروگرام میں  نہ آنے کی معذرت چاہی۔
 11 نومبر 1888 کو مولانا آزاد مکہ میں پیدا ہوئے ۔اس دن کو یوم قومی تعلیم  کے نام پر منایا جاتا ہے ۔ڈاکٹر عقیل احمد عقیل نے نظامت کا حق بخوبی ادا کیا۔ 
حالات حاضرہ پر اور مولانا آزاد کے سیاسی اور صحافتی علمی بصیرت پر  بحث کی گئی۔ تمام شرکاء نے اس بات پر زور دیا کہ ہندو مسلم اتحاد کے لیے ہمیں کام کرتے رہنا چاہیے ۔کیونکہ مولانا آزاد آخری دم تک ملک کی سالمیت اور بقا کے لئے ہندومسلم اتحاد کو ترجیح دی۔  تعلیمی پالیسی پر بحث کرتے ہوئے شمیم قیصر نے کہا کہ مولا نا آذاد ایک عالم دین تھے لیکن انہوں نے وزیر تعلیم بننے کے بعد تعلیم پر زبردست کام کیے۔ابتدائی تعلیم ،تکنیکی تعلیم اور  معاشرتی تعلیم پر انہوں نے ایسا خا کہ کھینچا جس پر آج بھی پورے ہندوستان میں کام ہو رہے ہیں ۔ تعلیم کے معاملے میں انھوں نے کبھی کوئی بھید بھاؤ نہیں کیا۔  ذات  پات کے نام پر اور نہ صوبہ کے نام پر اور نہ ہی کسی فرقے کے نام پر انہوں نے بھید بھاؤ کیا۔ جہاں سنسکرت زبان کو نصاب میں داخل کیا۔ وہی تربیتی تکنیکی تعلیم پر بھی زور دیا  یو  جی سی قائم کر کے انہوں نے پورے ہندوستان میں تعلیمی جال بچھا دیا ۔ ماہر فارسی پروفیسر غلام سرور نے مولانا آزاد کے خدمات پر اپنے لیکچر میں کہا کہ مولانا آزاد وہ ہمہ گیر شخصیت ہیں جنہوں نے ملک کے آزادی سے زیادہ ہندو مسلم اتحاد کو ترجیح دی۔ انہوں نے کہا کہ مولانا کے ایک قول ہے کے اگر کوئی ایک ہاتھ میں سوراج اور دوسرے ہاتھ میں آزادی کا پروانہ دے ۔تو و ہ ہندو مسلم اتحاد کو سور اج پر فوقیت دین گے۔  انہوں نے انڈیا وینس فریڈم کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کے آزادی کے تیس سال بعد ا جو 34 صفہے جاری کرنے کی شرط پر جو اقتباس کتاب میں شامل نہیں کیا تھا اس کی وجہ یہ تھی کہ بہت خون بہا کر ہمیں ابھی ابھی آزادی ملی تھی۔ انہوں نے اپنے ضمیمہ میں اس بات کو لکھا تھا کہ سردار پٹیل اور جواہر لال نہرو ملک کے بٹوارے کے اصل ذمہ دار رہے ہیں۔ جناح کا اس میں کوئی رول نہیں تھا۔ جس کی صداقت جسونت سنگھ نے اپنی ایک کتاب میں بھی کی۔ جس کی وجہ سے انہیں بی جے پی سے دستبردار ہونا پڑا۔  مولانا آزاد بٹوار ہ کے حق میں نہیں تھے۔ جب انہوں نے گاندھی جی کو ہندوستان پاکستان کی بٹوارے کی بات کہی۔ تو گاندھی جی نے انہیں کہا تھا کہ میری لاش پر بٹوار ہ  ہوگا۔ لیکن انیس سو چھیالیس کی وہ شام گاندھی جی نے   بٹواری کی حمایت کر دی۔ جس کے لیے نہرو اور پٹیل پیش پیش رہے۔  جس سے مولانا آذاد بے حد مایوس ہوئے۔

 پروفیسر غلام سرور نے کہا کہ آج کچھ لوگ ذ ات پات کی راج نیتی کر رہے ہیں۔ مولانا اس کے سخت خلاف تھے۔ اور وہ کبھی نہیں چاہتے تھے کہ ملک میں ذات ۔پات ،کی بھید بھاؤ کی جائے ۔وہ ہندو مسلم اتحاد میں یقین رکھتے تھے اور آخری وقت تک وہ اس اتحاد پر قائم رہے۔

 شمیم قیصر نے مولانا آزاد کے بارے میں کہا  کہ مولانا آزاد کے بارے میں کچھ کہنے کے لئے چند اور ا ق اور کتاب کی نہیں پوری زندگی کا مطالعہ ادھوری ہے۔  اتنے بڑ ے شخصیت کے بارے میں کچھ کہنا گویا چراغ کو روشنی دکھا نا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان کے اعلی تعلیم اور ذہن کو دیکھتے ہوئے  نہرو نےانہیں وزیر تعلیم بنایا۔ اس وقت جب ملک کی فضا ایسی نہ تھی جب مولانا آزاد کو وزیر تعلیم بنایا گیا بلکہ ان کی شخصیت اس قابل تھے کہ نہروں کو وزیر تعلیم بنا نا پڑا ۔انہوں نے یہ ثابت کر دیا کہ وہ ایک بے مثال شخصیت کے مالک ہیں۔ زرعی تعلیم، تکنیکی تعلیم، سائنسی تعلیماور سماجی علوم پر انہوں نے کام کیے ۔ فنون لطیفہ پر بھی انہوں نے کام کیا ۔للت اکیڈمی،ساہتیہ اکیڈمی اس کی ایک اعلی مثال ہے۔ انہوں نے گھر گھر تعلیم پہنچانے کا کام کیا ۔ 

 ان کی وسیع نظروں کا کیا کہنا ہر فرقہ ہر مذہب  کے لئے انہوں نے بغیر بھی دباؤ کے کام کیے۔ ہندوستان کی ترقی کیسے ہو اس کے لیے انہوں نے رات دن کام کیا۔  حالانکہ آج کے دور میں ملک کے حالات اچھے نہیں ہیں آج جو ہوا چل پڑی ہے ہمیں سخت محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔  آج ہمیں اتحاد کی ضرورت ہے ہمیں ان کے نقش قدم پر چلنا ہے۔ ہمیں متحد رہنا ہے آج ہم اگر متحد رہے تو یہ ہماری کامیابی ہوگی۔  مولانا آزاد کے لئے یہ ہمارے لیے خراج عقیدت ہو گئی۔ مولانا نے جو نقوش قائم کیے ہیں۔ ہمیں اس پر چلنے کی ضرورت ہے۔ 
 وسیم الحق نے مولانا ابوالکلام آزاد فاؤنڈیشن کا شکریہ ادا کیا انہوں نے کہا کہ میں ایک چھوٹا سا صحافی ہوں۔ مولانا آزاد ایوارڈ اپنے آپ میں میرے لئے ایک اعزاز ہے۔  کرونا وائرس کے دور میں  مولانا ابوالکلام آزاد فاؤنڈیشن نے بہت بڑا کام کیا ہےکہ آج ہم ایک جگہ جمع ہوئے ہیں۔ مولانا آزاد کے بارے میں کہا کہ مولانا نے جو کچھ  ماضی  میں کہا آج اس کی بے حد ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ  گذشتہ چھ برسوں میں ذہنی اور ظاہری طور سے سماج کو بانٹنے کا کام کیا  جا رہا ہے ۔ آج آزادی کے 74 سال گزر گیا لیکن ہم پچھڑتے جا رہے ہیں۔ ہم سیکولرزم سے، بھائی چارہ سے دور ہوتے جا رہے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ ہم مولانا آزاد اور اور ماجد دریابادی کے قابل بالکل نہیں ہے ۔بلکہ ایک ادنیٰ سا  سپاہی ہیں۔ صحافت کے وہ ایک سپاہی تھے ہم ان کے سامنے کچھ بھی نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آزادی کی تحریک میں انہوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔  انہوں نے ہندو مسلم اتحاد کے لئے تاعمر کام کیا بغیر کسی بھید بھاؤ کے۔ تاریخ گواہ ہے  انہوں نے سو راج کے بجائے اتحاد کو مقدم قرار دیا ۔اس پروگرام کے روح رواں خالد آباد اللہ نے کہا کہ وہ چاہتے ہیں کہ مولانا کے نام سے کلکتہ میں ایک انسٹی ٹیوٹ یا یونیورسٹی قائم کیا جائے۔ یہ پہلا موقع ہے جب مولانا آزاد فاؤنڈیشن کی جانب سے پہلی بار کلکتہ کے معزز ہستیوں کو مولانا ابوالکلام آزاد اایوارڈ سے نوازا گیا۔ خالد عبداللہ نے کہا کہ مولانا آزاد نے صحافت کے ذریعہ انگریزوں کو ملک سے بے دخل کیا۔  مولانا  آزاد نے تعلیم کے ذریعہ ترقی کی راہ ہموار کی ۔ مولانا نے تعلیم کے ذریعہ ترقی کی راہ ہموار کی۔  ہندوستان کو ترقی سے جوڑنے میں دن رات کوشش کی۔ جس کی ضرورت تھی۔ بلاشبہ وہ ایک دانشور تھے اور بہت دور کی سوچ رکھتے تھے۔ عقیل احمد عقیل نے اپنی نقابت کے دوران مولانا آزاد کے کئی اہم باتیں گو ش گزار کی ۔جس سے سامعین  بے حد محظوظ ہوئے۔ یہ پروگرام بہت کامیاب رہا آخر میں وؤٹ آف تھینکس کی ذمہ داری فاؤنڈیشن کے پیٹر ون جمیل منظر   نےکی اور شامعین کا شکریہ ادا کرتے ہوئے پروگرام کا اختتام کیا ۔