علامہ محمد اقبال اور ان کی فکری افکار اور اسلامیات
محمد شمیم حسین۔ کلکتہ
ڈاکٹر علامہ اقبال ایک عظیم فلاسفر ،مفکر ،قانون دا ں، سیاستدان ،ایک مصلح اور ایک عظیم شاعر گزرے ہیں۔ ان کی پیدائش 9 نومبر 1877 میں سیالکوٹ ،محلہ کھیتیاں میں ہوئی۔ اقبال کے والد کشمیر سے ہجرت کر کے سیالکوٹ پہنچے تھے۔ آپ کے والدین متقی اور پرہیز گار تھے۔ آپ ہندو سے اسلام مذہب قبول کیے تھے۔ اقبال کے چاہنے والوں نے بڑے ہی دھوم دھام سے ان کی 144 واں یوم پیدائش کا جشن پورے ہندوستان میں بڑے ہی تزک و احتشام ساتھ منایا۔ خاص طور سے اردو اسکول کالج اور یونیورسٹیوں میں ان پر سمینار بحث و مباحث کے پروگرام منعقد کئے گئے۔
اقبال کے تعلیمی سفر اور ان کے خدمات
آپ کی ابتدائی تعلیم سیالکوٹ کے ایک ا سکول اسکؤٹس مشن اسکول سے ہوئی۔ اس کے بعد لاہور کے پرسٹیجیس گورنمنٹ کالج سے آپ نے 1897میں گریجویٹ کیا ۔1899 میں اسی کالج سے ماسٹر کی ڈگری حاصل کی۔ آپ کا مضمون ن فلسفہ رہا ۔ اسی سبجیکٹ میں اپنے ماسٹر کی ڈگری کیمبرج لندن سے 1906 میں کیا۔ اس کے بعد 1908 میں یو نیور سٹی سے ڈاکٹر یٹ کی ڈگری لی۔ بہت کم لوگوں کو یہ معلوم ہے کہ انہوں نے فارسی میں میٹا فزکس پر اپنا ریسرچ ورک کیا تھا ۔جرمنی سے واپس لوٹے پر انہوں نے اسی سال یعنی 1908 میں لاہور کے گورنمنٹ کالج و یونیورسٹی میں پروفیسر کے عہدے پر فائز ہوئے فلسفہ کے علاوہ انگریزی کے بھی کلاس لیتے تھے۔ 1922 میں انہیں حکومت کی جانب سے نائٹ ہوڈ کا خطاب کنگ چارج V کے ہاتھوں ملا۔اور 1922 میں سر کا خطاب ملا۔
اقبال کے ادبی خدمات
فارسی اور اردو ادب میں اقبال نے تاحیات کام کیا۔ انہوں نے تقریبا بارہ ہزار اشعار اردو اور فارسی میں قلمبند کیے۔ جس میں سے سات ہزار اشعار فارسی زبان میں قلمبند کیےاور تقریبا 5000 سے زائد اشعار اردو میں اپ نے لکھے ۔1912میں شمع اور شاعر کے نام سے آپ نے ایک کتاب لکھا۔ آپ کے نثری کتاب علم ا لا قتصا د ' جو معاشیات پر تھے قلم بند کیے۔ شکوہ ، اور جواب شکوہ ،تا ریخ ہند 1913 میں ، اسرار خودی-1915 میں، بانگ درا 1924میں ، پیام مشرق-1923 میں، آئینہ عجم 1927 میں ،بال جبریل1935 میں، کلیات اقبال، رموز بخودی، ضرب کلیم، ارمغان حجاز، اور فارسی میں زبور اعظم جیسی بے مثال کتابیں لکھیں۔ جاوید نا مہ اور دانا ے قوم لکھیں۔ ایران کے عوام اقبال کو رومی اور فردوسی کے مقام پر جگہ دیتے ہیں۔ محمد اقبال کو حکیم الامت کے خطاب سے بھی نوازا گیا ۔ اقبال کی مشہور کتاب ری کنسٹرکشن آف ریلیجیئس
تھاٹس ان اسلام انگریزی میں تحریر کیا۔ اس کتاب کو ترکی زبان میں ترجمہ کیا گیا۔ اس سے اس کتاب کے اہمیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ شکوہ لکھنے کے بعد آپ پر کفر کا فتوی بھی لگا دیا گیا تھا۔ یہ 1913 کی بات ہے ۔ انہوں نے شکوہ کا جواب، جواب شکوہ سے دیا۔ اس کے بعد سے آپ پر سے کفر کا فتوی ہٹا دیا گیا۔ شکوہ میں 31 بند تھے جبکہ جواب شکوہ 36 بند تھے ۔ اس طرح آپ نے شکو ہ کے ہر بند کا جواب، جواب شکوہ میں دیا ۔ اس طرح ناقدین کا منہ آپ نے بند کرنے میں کامیابی حاصل کی۔ آپ نے اپنی ساری عمر مذہبی افکار کی تعمیر نو کے لئے اپنے پیغامات کے ذریعے عالم اسلام کو ایک پیغام دیا ۔ معرفت الہی کو سمجھنے کے لئے اقبال کے نظموں کا مجموعہ شکوہ، جواب شکوہ کافی مقبول مجموعہ ہے۔
اسلام کے متعلق ا شعار قرآن وحدیث کی ر و شنی میں انہوں نے لکھی۔شاعری کا آغاز آپ نے کالج کے زمانے سے 1899 میں شروع کر دی تھی اور مشاعروں میں شرکت کر نے لگے۔
اقبال کی شاعری میں حب الوطنی
علامہ اقبال مرحوم نے اپنی زندہ وپائندہ شاعری کے ذریعہ دنیا ئے اردو میں ایسا انقلاب برپا کیا اور ایسی روح پھونکی جسے محبان اردو کبھی فراموش نہیں کر سکتے۔ اقبال نے اردو فارسی اشعار نظم و غزلو ں میں پوری دنیا میں انقلاب پیدا کر دیا۔ آپ اردو کے عظیم فلسفی شاعر ہیں ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ اردو زبان و ادب کی ترقی و ترویج میں علامہ اقبال کا بہت بڑا کردار رہا ہے۔ ہے اردو کا شعری ادب اقبال کے اشعار کے بغیر ادھورا سمجھا جائے گا۔
الہ آباد کا تاریخی خطبہ
ملک کے آزادی سے قبل اقبال نے الہ آباد کے ایک کانفرنس میں شریک ہوئے اور اپنے خطبہ کے دوران انہوں نے کہا کہ ہندوستانی مسلمانوں کے لئے ان کی تہذیب و تمدن کو فروغ دینے کے لیے ایک خودمختار صوبہ دے دیا جائے۔ لیکن ہندوستان میں یہ غلط فہمی پیدا کر دی گئی کہ انہوں نے ہندوستان ' نظریہ پاکستان ' کی حمایت کی تھی۔ جو سراسر غلط اور بے بنیاد بات ہے۔
اقبال کی شاعری میں خدا کا تصور
علامہ سر محمد اقبال نے خدا کا حقیقی تصور سامنے لانے میں بڑی تگ دور کی ہے ۔ جس کے لیے انہوں نے ام الکتاب قران مقدس، رسالت و احادیث کو سامنے رکھا ۔اقبال عالم دین ہونے کے ساتھ ساتھ بہت بڑے مفکر اور فلسفی بھی ہیں۔ اقبال مذہب اسلام کو بڑی اہمیت دیتے ہیں اور اپنے اشعار میں یہ سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ مذہب ، بندہ کو خدا کا پابند اور صراط المستقیم کی طرف گامزن کرتا ہے ۔خدا کی قربت حاصل کرنے کے لئے اقبال نماز کو بڑی اہمیت دیتے ہیں۔ کیونکہ ان کی نظر میں نماز باجماعت میں بڑی قوت ہوتی ہے۔ جہاں ابلیس آسانی سے مات کھا جاتا ہے۔ اور انسان پر حالت نماز میں اس کا بس نہیں چلتا ہے ۔ خدا نے اس دنیا میں جو بھی شیے پیدا کیے وہ بے معنی نہیں ہے بلکہ با معنی ہے۔ جس میں خدا کی حکمت و قدرت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ بس اس کے لئے اپنی نظر میں وہ و سعت پیدا کرنی چاہیے جو خدا کی اس حقیقت اور حکمت کو سمجھ سکے۔
استاد کی قدر و منزلت اقبال کے نظر میں
اقبال اپنے استا ذ کی بڑی عزت کرتے تھے۔ انہوں نے عربی میں تعلیم لی ہو یا فارسی میں یا اردو میں یا پھر انگریزی میں تمام اساتذہ کا وہ دل سے عزت کرتے تھے ۔ کہتے ہیں کہ جب اقبال اعلی تعلیم کے لیے یورپ روانہ ہوئے اور ان کا جہاز جب عدن کی بندرگاہ سے گزرا تو ان کی کیفیت عجیب سی ہو گئی۔ انہوں نے پرو فیسر آ ر نا لڈ کے محبت اور ان کی شفقت پر پوری نظم لکھ کر یہ ثابت کر دیا کہ وہ اپنے استاد کی کتنی عزت کرتے تھے۔ وائٹ ہیڈ ، مولانا سید میر حسن، اور مولانا غلام حسن کی وہ بہت عزت کرتے تھے۔پروفیسر آرنلڈ پر جو جذباتی نظم آپ نے لکھے اس نظم کا نام 'لالہ فراق ' ہے۔
اردو غزل اور نظم میں میں طبع آزمائی
اقبال نے غزل اور نظم دونوں میں طبع آزمائی کی لیکن نظم نگار کے حیثیت سے وہ اردو ادب میں خاصی اہمیت رکھتے ہیں۔ وہ ایک غیر معمولی فہم و ادراک اور شعور بصرت رکھنے والے شاعر تھے۔ ان کی شاعری روح کو تڑپانے اور قلب کو گرمانے والی شا عری ہے ۔ان کی شاعری میں دل میں وطن سے محبت کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے۔
سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا اس کا۔اعلٰی مثال ہے۔ آپ نے تمام مسائل کا حل قرآن اور حدیث کی روشنی میں تلاش کیا ۔
ٹیگور کے فلسفیانہ خیالات اور اقبال
ٹیگور کے فلسفیانہ خیالات میں اقبال مرحوم کو فکری اور نظری اصولوں کو سائنٹیفک طرز سے ادا کیا ۔آپ نے تا عمر سوتی ہوئی قوم کو جگانے کا کام کیا۔بلخصوص ہندستان یا پھر یوں کہے کہ مشرق اور مغر ب کے مسلمانوں کو۔ علامہ اقبال واقعی ایک عظیم شاعر ہیں۔ انہوں نے کبھی کسی کو اپنا رقیب نہیں سمجھا۔ اسی لئے وہ خود کہتے ہیں کہ میں نے کبھی اپنے آپ کو شاعر نہیں سمجھا۔ اس واسطے میرا کوئی ر قیب نہیں اور نہ میں کسی کو اپنا رقیب سمجھتا ہوں ۔ آپکے کلام کو پڑھنے کے بعد یہ احساس ہوتا ہے کہ محب وطن کے جذبہ سے وہ سرشار تھے ۔انسان اپنی صلاحیتوں اور قوتوں کو پہچاننے اور ان سے کام لیں ۔وہ اسلامی تعلیمات کی روح کو سمجھے اور اس پر عمل کرے تو وہ حقیقت میں خدا کا جانشین بن سکتے ہیں اور اپنی تقدیر کے آپ مالک بن سکتے ہیں۔ ان کی شاعرانہ تخیل میں انقلابی افکار و نصیحت پر تاحیات سختی کے ساتھ عمل پیرا رہے۔ ایک موقع پر اقبال کے والد شیخ نور محمد نے کہا تھا کہ بیٹا جب تم قرآن پڑھو۔ تو یہ سمجھو کہ یہ تم پر ہی نازل ہوا ہے۔ اقبال اپنے والد کے اس بات پر تا حیات قائم رہے۔
اقبال کی سیرت اور مقبولیت کسی تعارف کے محتاج نہیں
اقبال نے اپنی شاعری میں انسانیت ،بھلائی، پیار و اخوت
و فاداری، بہادری مہمان نوازی اور ہمدردی کا پیغام عام کیا ہے۔ اقبال ہر انسان کو شاہین کی طرح بلند مقام پر دیکھنا چاہتے تھے ۔ ان کا ایک شعر ہے
عقا بی روح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں
نظر آتی ہے ان کو اپنی منزل آسمانوں میں
اس شعر کے تناظر میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ اقبال کی پوری شاعری قرآن اور حدیث کی روشنی میں ہے ۔
کچھ بات ہے کہ ہستی مٹتی نہیں ہماری
صدیوں رہا ہے دشمن دور زماں ہمارا
ہمالیہ ،صدائیں درد، ترانہ ہندی، نیا شوا لہ، تصویر درد ، خضر راہ، لب پہ آتی ہے دعا ، جگنو،گلہری اور شکاری، ماں کی فریاد ان نظموں کا مطالعہ کے بعد آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ اقبال کس حد تک اپنے وطن اور اسلام سے محبت کرتے تھے۔
اقبال پر تحقیقات اور اردو مضامین
اردو زبان و ادب ہندوستان کے مشترکہ تہذیب و ثقافت کی زبان ہے ۔جسے گنگا جمنی تہذیب کے نمائندہ زبان بھی کہا جاتا ہے ۔کہتے ہیں ڈاکٹر محمد علامہ اقبال پر جتنی تحقیقات اور مضامین لکھے گئے اور کتابیں شائع ہوئے۔ اردو کے کسی دوسرے شاعر یا ادیب پر اتنے کام ہوئے ۔اگر ہم غالب کو چھوڑ دیں تو ۔ آج بھی ان پر ان کی نظموں اور غزلوں پر تحقیق کا کام بلکہ ایک ایک اشعار پر کام چل رہا ہے ہے۔ اردو ادب میں اگر سب سے زیادہ ریسرچ ورک ملیں گے ۔تو وہ اقبال کی خدمات پر اردو اور فارسی کے حوالے سے ان کے نظموں و غزلوں کے اشعار پر ریسرچ کرتے ہوئے ملے گے۔ علامہ اقبال کی شاعری پر اگر ہم نظر ڈالے تو ان کا کلام مستقل متعین ،مربوط نظام فکر اور نظریہ کے تابع ہیں ۔ جس کی پشت پر اسلام کا فراہم کردہ ایک مضبوط نظام حیات ہے۔ آپ کی پرورش پوری طرح اسلامی ماحول میں ہوئی تھی۔ اپنی شاعری سے اقبال نے قومی مسلمہ کو بیدار کیا۔ قوموں کو عروج و زوال کے قصے اپنی شاعری کے ذریعہ پیش کیا ۔ آپ نے مسلم نوجوانوں کو علم، بہادری اور تقوی کی تعلیم دی ۔ علامہ اقبال کے اشعار یہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ ایسا معاشرہ چاہتے تھے جو قرآن و سنت اور اسلامی پر مبنی ہوں۔ آپ کے اشعار میں جابجا احساسات، مساوات ، ایکجہتی کے نمونے پائے جاتے ہیں۔ آپ کے انداز بیان ان کا طرز عمل کیا ہے۔ غیرت و حمیت اور شجاعت اور بہادری کا درس دیا دراصل اقبال کو قوم کے نوجوانوں سے بے حد محبت تھی اور وہ نہیں چاہتے تھے کہ قوم کے یہ نوجوان برباد ہوں۔
اقبال کی شاعری میں نوجوانوں کے لیے پیغام
اقبال کی شاعری میں درس اور پیغام ہوتا تھا۔ انسان کو مادہ پرستی سے ہٹا کر خدا پرستی کی طرف مائل کر دیتا ہے۔
فکر اقبال پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے اور آج بھی لکھا جا رہا ہے اقبال کے فکر کا محور انسان اور کائنات ہے ۔اقبال نے ساری عمر قرآن اور حدیث کے مطالعہ میں صرف کر دی ۔اللہ اور اس کے محبوب رسول کو سمجھنے میں لگا دیا ۔یہی وجہ ہے کہ اقبال کی شاعری قرآن پر غور و فکر کی دعوت دیتی ہے ۔انہوں نے ایک جگہ یہ بات کہی ہے کہ انسان کتاب خوان نہ ہو بلکہ صاحب کتاب ہو ۔ علامہ اقبال نے کہا عشق رسول ، مومن کی اصل پہچان ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے مومن کو' فو ق البشر' کہا ہے۔
علامہ اقبال کا شاعری کا واحد مقصد یہ ہے کہ عام انسان فلسفہ خودی کو سمجھ کر اور عشق رسول میں غرق ہوکر، مرد مومن بن جائے۔ ان کا فلسفہ مرد مومن یہی ہے کہ نئی نسل اپنے اندر اسلامی تصورات کو فروغ دیں اور نفس پر قابو رکھے اور طبیعت نیابت الہی سے اپنی زندگی میں تبدیلی لائے اور عمل صالح سے مرد مومن کا مرتبہ حاصل کر لیں۔
اقبال ایک آفاقی شاعر
علامہ اقبال ایک آفاقی شاعر ہے اقبال کی شاعری میں جابجا پرندوں کا ذکر تاریخی مقامات ، پیڑ پودے، شمع پروانہ کا خاکہ کہ ملتا ہے۔ آپ نے عورتوں کے حوالے سے بھی بہت کچھ لکھا ہے۔ خاص طور سے اقبال نے اپنی شاعری میں ماں، بہن، بیٹی کا درد کو آپ نے واضح کیا ہے۔ آپ کے نئے استعاروں ،نئی نئی ترقی اور تشبیہات سے اردو فارسی شاعری کو بلند مقام عطا کیا ہے۔
آپ کی نظمیں اور غزلیں اردو اور فارسی ، عربی اور انگریزی میں بھی ترجمے کیے گئے۔ آئے عورت کے حوالے سے جو تصورات اقبال کے کلام میں ہے وہ کسی اور شاعر کے کلام میں ہمیں نہیں ملتے ہیں۔
والدہ کی موت پر آپ کے تاثرات
علامہ اقبال کی والدہ کی جب موت ہوئی تو وہ یورپ میں تھے ۔ آخری وقت میں وہ ماں کا دیدار نہیں کر سکے۔ ماں کیا ہوتی ہے۔ اس کی تڑپ کیا ہوتی ہے۔ انہوں نے اپنے الفاظ میں کچھ یوں کہا ہے۔ ماں زندگی کا باغ ہے۔ ماں کے جانے سے سب کچھ ختم سا ہو گیا ۔ماں کی جدائی کا غم ایسا ہے کہ خوشی کے موقع پر ہنستا ہوں اور نہ ہی غم کے وقت آنسو نکلتے ہیں۔ یہ سچ ہے کہ انسان کتنا ہی صابر کیوں نہ ہو کسی نہ کسی موقع پر اس کی قوت برداشت ختم ہو جاتی ہے۔ آنسو بہانے پر مجبور ہو جاتا ہے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ماں دنیا کی واحد ہستی ہے جس کے سامنے اعلی سے اعلی مراتب انسان بھی اپنے آپ کو چھوٹا سا بچہ محسوس کرتا ہے۔ ما ں محبت و شفقت کا ایک ایسا جذبہ ہے۔ جس سے ہر عمر میں انسان س سیراب ہونا چاہتا ہے۔ ماں کی آغوش ایسی جگہ ہے کہ اس کے سائے میں اگر ساری تکا لیف ذہن سے محو ہو جاتی ہے۔ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اقبال نے جابجا تاریخ ساز خواتین کے کردار کو اپنی نظموں میں جگہ دی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اقبال ایک عہد ساز شخصیت کے مالک ہیں۔ اردو ادب ان کے کارناموں پر جتنا بھی فخر کر ے کم ہے ۔
آپکی وفات 21 اپریل 1938 میں صبح کو 5 بج کر 14 منٹ میں لا ہور میں ہوئی۔