Random Posts

Header Ads

Waqf Board Significance and usefulness

 
Waqf Board Significance and usefulness

وقف بورڈ۔۔۔۔ اہمیت اور افادیت

 : خورشید ملک (کولکاتا

ہندوستان میں ریلوے کے بعدا گر کسی کے پاس سب سے زیادہ جائدادیں ہیں تو وہ اوقاف کی جائیدادیں ہیں جسے ہمارے آباءو اجداد نے  وقف  کیا تھا۔  ہمارے ملک میں کل 616732 جائیدادیں ہیں جن میں اتر پردیش میں166855 جائیدادیں، مغربی بنگال میں 80480 اور کرناٹک میں 54195 جائیدادیں ہیں ۔ یعنی کل جائیدادوں کا تقریباً پچاس فیصد ان ہی تین ریاستوں کے پاس ہیں ۔ اگر تامل ناڈو کو بھی شامل کر لیں جہاں 53486 جائیدادیں ہیں تو ملک ملک میں وقف کی جتنی جائیدادیں ہیں اس کا 60/70 فیصد حصہ ان ہی چار ریاستوں میں ہیں ۔ اگر ہم صرف مغربی بنگال میں وقف کی جائیدادوں کی قیمت کا اندازہ لگائیں تو سرکاری زرائع کے مطابق اس کی قیمت 19 ہزار کروڑ روپے ہے۔ 

( آج کے مارکیٹ ریٹ کے حساب سے اندازہ لگائیں تو پچاس ہزار کروڑ سے بھی زیادہ) جبکہ کرناٹک میں وقف جائیدادوں کی قیمت ایک لاکھ پانچ ہزار کروڑ روپے ہے۔ آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ملک میں اگر وقف کی تمام جائیدادوں کی قیمت کا اندازہ لگایا جائے تو کئ لاکھ کروڑ روپے ہو گی۔ کئی مہینے قبل سپریم کورٹ میں وکیل رؤف رحیم اور علی اصغر رحیم نے ایک پی آئی ایل داخل کر کے کئی چونکانے والے انکشافات کئے تھے۔ انہوں نے سپریم کورٹ سے کہا تھا کہ وقف بورڈ سے متعلق جو قوانين بنائے گئے ہیں اس پر ریاستی حکومتیں عمل نہیں کر رہی ہیں ۔ ملک میں 29 وقف بورڈ ہیں۔ وقف بورڈ سے ہونے والی آمدنی کا 7 سے 10 فیصد اخراجات ان وقف بورڈ پر کئے جاتے ہیں پھر بھی اوقاف کی بربادی اور ان پر قبضوں کی خبریں آئے دن آتی رہتی ہیں۔ اوقاف کے ماہرین کا کہنا ہے کہ اوقاف کی بربادی کے پیچھے اصل وجہ اوقاف قوانین کی خرابی اور اس سے بھی زیادہ عدم نفاذ ہے۔

معروف ایڈوکیٹ طارق فاروقی کا کہنا ہے کہ وقف ایکٹ 1995 کے تحت غیر قانونی قبضوں سے کسی بھی وقف کو خالی کرانے کا آڈر پاس کرنے کا حق وقف بورڈ سے چھین کر وقف ٹریبونل کو دے دیا گیا ہے، اس سے وقف بورڈ کے اختیارات کم ہوگئے ہیں۔ لیکن سب سے بڑی گڑبڑی جو اس ایکٹ کی ہے وہ یہ ہے کہ وقف بورڈ کی جو زمینیں اکوائرکی جائیں گی ان کے متبادل کے طورپر زمین دی جائے گی۔ مطلب دس ایکڑ  prime location   کی زمین اکوائر کی گئی تو دس ایکڑ کھیتی کی زمین بھی دی جا سکتی ہے۔ سپریم کورٹ میں پی آئی ایل داخل کرنے والوں نے یہ انکشاف بھی کیا کہ غیر قانونی طور پر زمینیں بلڈروں کو بیچی جا رہی ہیں ۔ ٹھیکہ، لیز اور کرائے کے طور پر متولی اور وقف بورڈ میں کام کرنے والے موٹی رقم وصول کر کے بہت معمولی رقم کرایہ فکس کرتے ہیں ۔ وقف بورڈ کی جائیدادوں پر ناجائز قبضے کا چلن عام ہوتا جا رہا ہے۔ اور اس کام میں متولی، وقف بورڈ کے عملے اور سیاست دانوں کی سانٹھ گانٹھ سے کسے انکار ہے۔ اگر وقف کی جائیدادوں سے کرائے یا لیز کی صورت میں جو آمدنی ہوتی ہے  اسے مارکیٹ ریٹ کے حساب سے طے کئے جائیں تو آمدنی ہزار گنا بڑھ سکتی ہے۔ صرف مغربی بنگا میں ہی ہزروں کروڑ روپے سالانہ آمدنی کی صورت نکل سکتی ہے لیکن وقف بورڈ کے عملے اور متولی صاحبان ایسا چاہیں گے نہیں ۔ وجہ آپ سب جانتے ہیں ۔ 

سیکشن 104 بی میں کہا گیا ہے کہ سرکاری قبضے سے جائیداد کو واپس لینے کا اختیار وقف بورڈ کو حاصل ہے یا پھر مارکیٹ ریٹ پر کرایہ دینا ہوگا، لیکن اس پر عمل نہیں ہوتا کیونکہ سرکار اور حکومتی ایجنسیوں کے پاس وقف جائیدادوں کاقبضہ ہے اوران کامعمولی کرایہ دیا جارہا ہے۔ حالانکہ سیکشن 8 کے تحت وقف ایکٹ تمام قوانین کو سپر سیڈ کرتا ہے، لیکن عملاً ایسا نہیں ہوتا۔ سپریم کورٹ کے معروف وکیل شکیل احمد سید کہتے ہیں کہ سیکشن 9 اور سیکشن 32 میں بہت سے اختیارات دیئے گئے ہیں، لیکن ان کو نافذ ہی نہیں کیا گیا۔
2006 میں سچر کمیٹی اور 2008 میں مشترکہ پارلیمانی کمیٹی نے اپنے رپورٹ میں یہ کہا تھا کہ وقف بورڈ سے جو آمدنی ہوتی ہے اسے مسلمانوں کی تعلیم، روزگار اور بہبود پر خرچ ہونا چاہئے ۔

وقف بورڈ سے جو آمدنی ہوتی ہے اسے سرکار چاہے تو سیکڑوں گنا بڑھا سکتی ہے۔ ان پیسوں سے کئی ہسپتال، اسکول اور کالج قائم کئے جا سکتے ہیں ۔ہمیں سرکار سے بھیک مانگنے کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی لیکن اس کے لئے عوام کو بیدار ہونا چاہئے ۔ایک زبردست تحریک کی ضرورت ہے۔ آر ٹی آئی کر کے سوالات پوچھنے کی ضرورت ہے۔ سرکار سے پوچھئے کہ وقف کی پراپرٹی کتنی ہے اور کہاں کہاں ہے؟  سرکار سے پوچھیے کہ ان پراپرٹی سے سالانہ کتنی آمدنی ہو رہی ہے؟  سرکار سے پوچھئے کہ وقف بورڈ کی جو عمارتیں ہیں ان میں کتنے کرایہ دار ہیں اور وہ کون لوگ ہیں؟  سرکار سے پوچھئے کہ اگر اس علاقے میں کرایہ 100 روپے اسکوائر فٹ ہے تو پانچ روپے کس نے اور کیوں طے کیا؟ سرکار سے پوچھئے کہ وقف کی پراپرٹی پر شراب کی دکانیں کیوں کھولی گئی ہیں؟  سرکار سے متولیوں کے نام پوچھئے اور ان کے بینک اکاؤنٹ کی تفصیل مانگئے۔ سرکار سے پوچھئے کہ وقف کی پراپرٹی پر ناجائز قبضہ کس کا ہے۔ سرکار سے  illegal encroachment  سے متعلق سوالات کیجئیے۔ سرکار سے پوچھئیے کہ وقف بورڈ کو چلانے میں سالانہ کتنا خرچ آتا ہے۔ سرکار سے پوچھئے کہ وقف بورڈ کی آمدنی اور فنڈ کا Diversion 
کہاں کہاں اور کب کب ہوا؟ آپ سوالات پوچھئے، یہ آپ کا، حق ہے۔ ہمارے اجداد کی پراپرٹی ہے۔حساب مانگنے کا ہمارا پورا حق ہے۔
  
وقف بورڈ کی تشکیل میں جو افراد ممبر بنائے جاتے ہیں ان میں ایک مسلم ممبر اسمبلی ہوتا ہے جبکہ دوسرا مسلم ممبر پارلیمنٹ ہوتا ہے۔ یعنی وقف بورڈ کی تشکیل میں جب اوقاف کے انتظام کوبہتر بنانے کا ہدف شامل نہیں ہے اور اس کے بجائے کہ وقف بورڈ پروفیشنل انداز میں کام کرے، سیاسی نمائندوں کی تقرری سے ہم اورکیا امیدیں کر سکتے ہیں۔ وقف بورڈ کی حقیقت اور سرکار کی نیت کو دیکھنے کے بعد کلیم عاجز صاحب کے یہ دو شعر یاد آ گئے۔
میرے ہی لہو پر گزر اوقات کرو ہو 
مجھ سے ہی امیروں کی طرح بات کرو 
یوں تو کبھی منہ پھیر کے دیکھو بھی نہیں ہو 
جب وقت پڑے ہے تو مدارات کرو ہو

خورشید ملک