Random Posts

Header Ads

Banaras mai bunkaroon ka hal behal

 

Banaras mai bunkaroon ka hal behal

"کمائے دھوتی والا،کھائے ٹوپی والا، ذہنیت درست نہیں"

تحریر:اقبال،ٹائمزگروپ


     بنارس آس پاس کے ضلعوں میں بنکروں کی اک بڑی آبادی بستی ہے۔صرف کبیر کی نگری،نذیر کی دھرتی،مودی جی کا پارلیمانی حلقہ بنارس کی بات کریں تو یہاں اس شہر میں بنکروں کی آبادی لاکھوں میں ہے۔یہ وہ شہر ہے یا یہ وہی بنکر ہیں جن کی وجہ سے بنارس ، پروانچل کی راجدھانی  یا بنارسی ساڑیوں  کا مرکز بھی کہا جاتا ہے جو سالانہ عربوں روپئے کا بزنس دیتے ہیں لیکن اگر فی الحال کوئ طبقہ سب سے زیادہ پریشان اور پریشانی میں ہے  تو یہی وہ بنکر برادری،بنکر سماج ہی کے لوگ ہیں ۔یہاں یہ بات بھی صاف کرتا چلوں کہ ان بنکروں میں ہر ذات دھرم کے لوگ شامل ہیں یہ الگ بات ہے اس پیشے سے زیادہ تر مسلمان ہی جڑے ہیں ۔کہنا غلط نہیں ہوگا کہ اس برادری کے لوگ (بالخصوص مسلمان) تانے بانے سے آگے یا الگ کچھ سوچتے ہی نہیں ۔یہی وجہ ہے ان کے یہاں کے بچے اس کاروبار کے علاوہ ڈاکٹر انجینئر وکیل یا کسی اعلی عہدے پر جانے کی سوچتے ہی نہیں ۔وہ تو اللہ کا شکر ہے کہ  کچھ لوگ اب اپنے بچوں کو پڑھانے یا اونچی تعلیم دلوانے لگے ہیں جس سے یہ فائدہ ہوا کہ ان کے بچے کچھ نہیں تو ڈاکٹر ضرور بن رہے ہیں لیکن یہ فی صد بھی آٹے میں نمک کے برابر ہے۔

ایسا بھی نہیں کہ ان بنکروں کے لائحہ عمل میں اسکول کالج ہاسپٹل نہیں، بلکل ہے لیکن اونچی تعلیم کا رجحان اب بھی بہت کم ہے ورنہ ان بنکروں میں ایسے امیر سرمایہ داروں کی بھی اک بڑی تعداد ہے جو صرف ذہین بنا لیں تو ہر سال ایک نہیں کئ کئ ڈاکٹر،انجینئر وکیل،پروفیسر،آی اے ایس، آئ پی ایس آفیسر دے سکتے ہیں ۔

بہرحال یہاں بات مجھے ان سرمایادار بنکروں کی نہیں کرنی بلکہ ان بنکر مزدوروں کی کرنی ہے جو اپنی محنت سے ہزاروں گرہستہ، کوٹھی دار،گدی دار تو پیدا کر دیئے لیکن وہ خود آج بھی اپنے لئے اک اچھا گھر تک نہیں بنا سکے۔ آج بھی وہ اپنے ٹوٹے پھوٹے مکانوں یا کرائے کے گھروں میں رہنے پر مجبور ہیں  اور بنائیں بھی کیسے کہ مہنگائی چاہے آسمان چھو لے لیکن کوٹھی دار،گرہستہ ان کی مزدوری نہیں بڑھا سکتے۔کہتے ہیں انہیں کوٹھی دار،گرہستہ آج بھی وہی مزدوری دیتے ہیں جتنا بیس سال پہلے دیتے تھے۔یہاں یہ بھی بتاتے چلیں کہ ان بنکروں کی بھیڑ میں زیادہ تر وہ غریب بنکر ہیں جو ان  سرمایہ داروں بنکروں  کے یہان بنکاری کا کام کرتے ہیں اور دس بارہ گھنٹے ڈیوٹی کے بعد مشکل سے  تین یا چار سو روپئے یومیہ پاتے ہیں ۔ان مزدورں کی مانیں تو انھوں نے مزدوری بڑھانے کے لئے کئ کوششیں کیں لیکن یہ مگر مچھ سرمایہ داروں نے ان کی کبھی ایک نہ سنی۔دراصل ان بنکر مزدوروں کا کوئ تنظیم  نہیں اور جو ہیں بھی تو وہ گرہستہ،گدی داروں  کی چاپلوسی میں لگے رہتے۔ان بنکروں میں کچھ لوگ ایسے بھی سامنے آئے ہیں جو  اپنی زمین جائداد بیچ کر یا بینکوں سے قرض لے کر اپنے اپنے گھروں میں دو ایک ہینڈ لوم، پاور لوم کے کارخانے لگا چکے ہیں لیکن بد قسمتی وہی کہ انہیں بھی تانا بانا ان ہی گدی داروں سے لینا پڑتا ہے یا ان ہی کا کام اپنے یہاں لا کر کرنا پڑتا ہے گویا ان گدی داروں کا سرمایہ دارانہ نطام، ان کی ٹھیکیداری یہاں بھی قائم ہے ۔کہنا غلط نہیں ہوگا کہ ان مزدوروں کی بد حالی کا ذمہ دار صرف حکومت نہین یہ گرہستہ،کوٹھی دار بھی ہیں جو برسوں سے ان بنکر مزدوروں کا استحصال کر رہے ہیں ۔

کہتے ہیں یہ وہی گرہستہ کوٹھری دار ہیں جو بنکروں کو ملنے والی سرکاری/غیر سرکاری سہولتیں بھی خود ہی ڈکار جاتے ہیں ۔

واضع ہو کہ2006 میں بنکروں کی بد حالی کو دیکھتے ہوئے اس وقت کی موجودہ حکومت نے بنکروں کو فلیٹ ریٹ پر بجلی دینے کا سلسلہ شروع کیا تھا ۔گویا بنکروں کو پاور لوم چلانے پر ایک فکسڈ چارج دینا پڑتا تھا۔اس کا فیصلہ یہ سوچ کر حکومت نے لیا تھا کہ پاور لوم چلانے میں غریب بنکروں کو ایک بڑی مدد ملے گی۔ غریب بنکر اس سہولت سے خوش بھی تھے۔لیکن موجودہ یو پی کے بی جے پی حکومت نے یہ سہولت بھی بند کر دیا ہے نتیجہ بنکروں کو جہاں ہر ماہ فکسڈ ریٹ دینا پڑتا تھا اب انہیں ہر ماہ ہزاروں کا بجلی بل ادا کرنا پڑے گا۔اس سلسلے میں بنکروں نے اب آواز اٹھانا شروع کر دیا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ یو پی  سرکار فلیٹ ریٹ بجلی کی سہولت بحال کرے ورنہ وہ یکم ستمبر 2020 سے اپنے پاور لوم بند کر ہڑتال پر چلے جائنگے۔ویسے نہیں لگتا کہ یو پی حکومت ان کو ملنے والی یہ سہولت بحال کرے۔وجہ ان کا ماننا ہے کہ غریبوں بنکروں کو ملنے والی اس سہولت کا بڑا فائدہ وہ لوگ اٹھانے لگے ہیں جو بنکر ہیں بھی نہیں یا وہ لوگ اٹھانے لگے ہیں جو بڑے بڑے سرمایادار ہیں ۔بجلی محکمہ کے افسروں نے آف ریکارڈ یہاں تک بتایا کہ کچھ بڑے اور سرمایہ دار بنکر تو ایسے بھی ہیں جو پاور لوم کے نام پر کئ کئ کنکشن لے چکے ہیں لیکن اس کنکشن سے وہ پاور لوم ہی نہیں کئ کئ اے سی بھی چلاتے ہیں اور بجلی بل فلیٹ ریٹ کی چاہتے ہیں ۔اس میں دو رائے نہیں کہ ایسے لوگوں کی تعداد بھی کم نہیں لیکن اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ سرمایہ داروں کی سزا غریب بنکروں کو دی جائے۔سوال یہاں یہ بھی ہے کہ آخر یہ سرمایہ دار بنکر غریب بنکروں کو ملنے والی سرکاری سہولتوں پر بھی نگاہیں کیوں جمائے رہتے۔وہ کیوں نہیں سوچتے کہ ہم تو جی لیں گے لیکن یہ غریب بنکر کیا کریں گے۔

بنکروں کی موجودہ صورت حال کی بات کریں تو لاک ڈاون نے جہاں غریب بنکروں کو سڑک پر لا دیا ہے وہیں ساڑی کے بڑے بڑے کاروباری بھی بے چین ہیں کہ اگر حالات یوں ہی برقرار رہے تو ان کے کاروبار کا کیا ہوگا۔سرمایہ داروں کا کہنا ہے کہ ہمارا کاروبار ھندوستان ہی نہیں بیرونی ملکوں میں بھی پھیلا ہوا ہے لیکن فی الحال لاک ڈاؤن کے بعد سے سپلائی بلکل ٹھپ پڑا ہے نتیجہ مجبوری میں اپنا ہینڈ لوم پاور لوم بند کرنا پڑا ہے۔سچ بھی یہی ہے کہ ان بنکروں کے زیادہ تر ہینڈ لوم پاور لوم  بند ہو چکے ہیں ۔اتنا ہی نہیں حال یہ ہے کہ غریب بنکر تو جینے کھانے کے لئے اپنے پاور لوم کباڑیوں کے ہاتھوں بیچنے پر مجبور ہو چکے ہیں یا پھر وہ بنکاری کا کام چھوڑ کر ساگ سبزی بیچنے، قلی  کا کام کرنے لگے ہیں ۔

    چلتے چلتے اک بات اور یہ ضرور کہنا چاہوں گا ان بنکروں و بنکروں کے مگر مچھ مسیحاوں سے کہ اپنے حق کی لڑائ کا طریقہ صرف دعا خوانی یا گاہے بگاہے مُرّی بند کرنا نہیں ہے بلکہ سڑک سے سنسد تک لڑائ لڑنے کے لئے ایک لائحہ عمل بھی تیار کرنا ہوگا۔اور اس کے لئے شہر بھر میں پھیلے علاقائی سرداروں، بنارسی ساڑی ،کپڑے کے تاجروں، بنکر مزدوروں کو ایک پلیٹ فارم پر لانا ہوگا اور خود غرضی کی چادر پھینک کر ایمانداری  اور حوصلے سے اک بڑی لڑائ لڑنی ہوگی۔یاد رکھئے اس کاغذی کاروائی سے کچھ نہیں ہونے والا۔یو گی ہوں یا مودی ایک وفد تیار کر ان سے خود مل کر بات کرنی ہوگی۔

سوچئے تو وہ بھی زمانہ آپ ہی کا تھا،وہ لوگ بھی آپ ہی تھے جب بڑے بڑے وزیروں، افسروں کو آپ سے ملنے کا وقت لینا پڑتا تھا،آپ سے ملنا وہ اپنی خوش قسمتی سمجھتے تھے آج کیا وجہ ہے کہ آپ حاثیئے  پر ہیں کوئ آپ کی بات سننے،مطالبہ ماننے کو تیار نہیں؟اور ہاں  بدلیئےاس ذہنیت کو بھی کہ "کمائے دھوتی والا کھائے ٹوپی والا"۔

         

 (اقبال،ٹائمز گروپ)