زہریلی زبانیں بولنے والے
جن سنگھی، طالبانی ،گو دی ، دلال اور بکاؤ میڈیا کا بائیکاٹ کر یں۔
محمد شمیم حسین
کولکاتا
ہندوستان ایک جمہوری ملک ہے اور میڈیا اس ملک کا سب سے اہم ستون ہے۔ اس ملک میں جہاں اظہار رائے سبھی کا حق ہے ۔میڈیا کا اہم رول ہے انتظامیہ اور عوام کے درمیان پل کا کام کرنا۔حکومت کی باتیں عوام تک پہنچانا اور عو ام کی باتوں کو حکومت تک پہنچانا۔ میڈیا ایک پل کا کام کرتا ہے حکومت اور ماس کے درمیان۔ لیکن گذشتہ بیس برسوں سے اس میں کافی تبدیلیاں آچکی ہیں۔ کچھ پرائیویٹ چینلوں کے اینکر پرایم ٹائم میں نیوز چینل سٹوڈیو کو وار روم میں بدل دیتے ہیں ۔گذشتہ چھ سات برسوں سے جب سے ملک میں بی جے پی حکومت ا آئی ہے میڈیا کھل کر اسلام مخالف پرچار کر رہی ہے۔ بس انہیں ایک کلو چاہیے۔ ہمیں غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے کہ آخر ہم کیوں نشانہ بن رہے ہیں۔ پوری دنیا میں آج مذہب اسلام کے ماننے والے دوسرے نمبر کا سہری بن گئے ہیں۔ میڈیا کی طاقت سے آج کوئی انکار نہیں کرسکتا ۔و ہ الیکٹرونک میڈیا ہو، پرنٹ میڈیا ہو، سوشل میڈیا ہو یا پھر نیو میڈیا۔ نیو میڈیا کا ہی کمال ہے کہ ہم ہر پل اپڈیٹ رہتے ہیں۔ ہندوستانی ٹیلی ویژن اور اس کے اینکر ہر وقت نگاہ لگائے بیٹھے ہیں کہ وہ اپنے مقصد میں کب اور کس طرح کامیاب ہونگے ۔ا ر نب گو سو ا می، ممتا کالے اوم کیسپ جیسے انکرواور ان کے نیوز چینلوں کا بائیکاٹ کرنا چاہیے۔ ایسے اینکر پرائم ٹائم میں جس زہریلی زبان کا استعمال کرتے ہیں۔ وہ اخلاق سے بالکل گرا ہوا ہوتا ہے۔ ایک خاص قوم کے لئے تاکہ انکونسا نہ بنا یا جا سکے۔ جو ان کا سيو ا بن چکا ہے۔ انٹرنیٹ کا زمانہ ہے اس میں کوئی شک نہیں نیو میڈیا نے فیک نیوز اور پیڈ نیوز پر خصوصی توجہ دی ہے۔ افواہ پھیلانے میں فیک نیوز کے لئے سوشل میڈیا نمبر ایک پر ہے۔ اور یہ سب سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ کا کمال ہے۔
30 فروری 2020 سے قبل کورونا نے ہندوستان میں دستک دے دیا تھا ۔کورونہ سے ہندوستان میں جو پہلی موت ہوئی وہ 10 مارچ کو کرناٹک میں ایک 76 سال کے بزرگ کی مو ت سے شروع ہوچکی تھی جو سعودی عربیہ سے 29 فروری کو لوٹے تھے ۔ حیدر آباد ایئرپورٹ میں اسکریننگ کے دوران کو رونا کا کوئی سمٹم نہیں پایا گیا ۔آٹھ مارچ کو وہ بیمار ہو گئے۔ جہاں انہیں گلبرگہ کے ایک پرائیویٹ نرسنگ ہوم میں داخل کرایا گیا۔ جہاں وہ دو دنوں کے علاج کے بعد چل بسے۔ 13مارچ کو دہلی میں کرونا وائرس سے ایک خاتون کی موت ہوئی۔ یہ خاتون حال ہی میں یورپ کے دورے سے لوٹی تھیں۔ ان کی عمر 68 سال تھی.۔ 5تا 22 فروری اس خاتون نے اٹلی اور سوئزر لینڈ کا دورہ کیا تھا۔ آج کچھ ہندوستانی چینل ایک مذہب سے جوڑ کر کرونا وائرس کو تیزی سے پھیلنے کا ذمہ دار ٹھہرا رہی ہے۔ تبلیغی جماعت کو طالبانی جماعت سے مشابہ کیا جا رہا ہے ۔ہندوستان میں گودی میڈیا کے چند اینکر جی جا ن سے کورونہ کو مسلم کو رونا ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں ۔اگر باریکی سے ہم دیکھیں تو یہ وبا بین الاقوامی پرواز سے لائی گئی ہے ۔جو لوگ تجارت کے غر ض، سے تعلیم کے غر ض سے نوکری کے غر ض سے اور سیر و تفریح کے غرض سے بیرون ملک گئے ہوئے تھے۔ انہیں گلف کنٹری، ایران ،چین، اٹلی، فرانس،انگلینڈ، امریکہ، اسپین اور دیگر یورپی ممالک سے واپس بلائے گے، کیونکہ ہندوستان میں بین الاقوامی پرواز اٹھائیس مارچ تک جاری رہیں البتہ ڈومسٹیک اڑان 25 ما ر چ سے بند کر دی گئی۔ جنوری میں صرف پانچ ہزار یومیہ لوگوں نے پرواز کیا ۔ اسی طرح فروری میں 3700 لوگ ہر روز سفر کرتے رہے البتہ 12 مارچ تک ہوائی پرواز میں لوگوں کی بھیڑ 2700 تک تعداد جاپہنچتی۔ لا ک ڈا و ن 24مارچ سے اکیس دنوں کے لیے یعنی 14 اپریل تک پہلے مرحلہ کے لیے کیا گیا۔ جس کی توسیع 14 اپریل کے بعد دوبارہ دو ہفتوں کے لیے کردی گئی ہے۔ اگر ان سب باتوں پر نظر ڈالی جائے تو 22 مارچ تک تقریبا آٹھ لاکھ لوگ بیرون ملک سے ہندوستان آئے ہیں بری اور بحری زرعیہ سے۔ ہندوستان میں پہلے متاثر مریض کے 50 دن بعد لا ک ڈ اون کا اعلان کیا گیا۔ جبکہ چین نے 65 دنوں کے بعد لاک ڈاؤن کا اعلان کیا تھا۔ اور اتلی نے ان 39 دنوں کے بعد لا ک ڈ ا و ن کا اعلان کیا اس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ مرض کس تیزی سے پوری دنیا میں اپنا پیر پسار رہا تھا۔ اٹلی میں کورونا کا پہلا معاملہ 31جنوری کو سامنے آیا تھا جب کہ اٹلی میں 10 مارچ سے لا ک ڈاؤن کیا گیا ہے ہے اسی طرح ہندوستان میں اس وائرس کا پہلا سکار 31 جنوری کو کرناٹک میں دیکھنے کو ملا۔ ہندوستان میں لوک ڈاؤن کا اعلان 24 ما ر چ سے کیا گیا۔ چین کے و ہا ن میں کورونہ کا پہلا کیس 30 دسمبر 2019 کو سامنے آیا۔ اس حکومت نے 65دنوں کے بعد لا ک ڈ اؤں کا اعلان کیا تھا ۔تب تک کئی ملکوں میں ہزاروں لوگ چان گنو اں چکے تھے اور لاکھوں لوگ کورونا وائرس کے زد میں آ چکے تھے ۔ان ملکوں میں کونسا تبلیغی جماعت آئی ہوئی تھے۔کیا ہمارے یہ ہندوستانی اینکر بتائیں گے۔جس سے یہاں اتنے اموات اور اتنے متاثر پائے گئے۔ ہندوستانی میڈیا نے بالخصوص جی نیوز ،نو بھارت، انڈیا ٹو ڈ ے، اے بی پی جیسے نیوز چینل کے اینکر و نے نظام الدین مرکز سے جوڑ دیا ۔جبکہ مارچ کے وسط میں کنیکا کپور لندن سے لکھنؤ ایک پارٹی میں آئی تھی۔ اور سکر وں بی جے پی لیڈروں کے رابطہ میں اس پارٹی کے دوران آئی جو کورونا پوز اتو تھی لیکن میڈیا نے اس کو موضوع نہیں بنایا ۔دراصل گودی میڈیا نفرت کے بیج بونے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔اس مہلک وبا سے پوری دنیا میں جہاں جنگ جاری ہے ۔وہیں ہمارا الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا، نیو میڈیا، سوشل میڈیا تمام حدیں پار کر کے ہندو مسلم کر رہی ہے۔ میڈیا آج موت کا سوداگر بن چکا ہے۔ اس وائرس سے جتنے لوگ نہیں مرے اس سے کئی گناہ زیادہ لوگ میڈیا کی اس غلط تشہیر کا نشانہ بن گئے۔ وزارت اطلاعات و نشریات اگر ان سب چیزوں پر پابندی نہیں لگا پائیں تو اس ملک کے پچیس کروڑ مسلمانوں کو تل تل مرتے رہیں گے۔ کیونکہ ان اینکروں کی زہریلی زباں اس وائرس سے زیادہ خطرناک ہے ۔جو ملک کے ایک خاص طبقہ پر ہر وقت نشانہ بنا رہے ہیں۔ انہیں آواز بلند کرنے پر پر انصاف مانگنے پر غدار کہا جاتا ہے ۔یہ وہی غدار ہیں۔ میڈیا کو یہ یاد رکھنا چاہئے جن کے آباء و اجداد اس ملک کی آزادی کے لیے غلامی کی زنجیر توڑ دیں ۔سر کٹا دیا لیکن سر جھکنے نہیں دیا ۔میڈیا کے زرخرید اور پالتو لام ہندوستان کی تاریخ اور مسلمانوں کی قربانی سے نابلد ہیں۔ انہیں صحافت کا مطلب ہی نہیں معلوم۔ یہ وہ لوگ ہیں جو ملک کو اندر سے کھوکھلا کر رہے ہیں۔ ایک دن آئے گا جب عوام میڈیا کا خود بائیکاٹ کریں گے۔ ہندوستان کے 30 کروڑ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ بکاؤ اور دلال میڈیا کے چینلوں کا بائیکاٹ کرے اور متحد ہونے کا ثبوت دے۔ کے میڈیا ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔ ہم ایک ہو جائے اور بکاؤ میڈیا کا مکمل طور پر بائیکاٹ کرے۔ آپ یہ چان لے آج کا میڈیا فرقہ میں دشمنی کو فروغ دے رہا ہے۔ اور ہندومسلم کے درمیان خلش پیدا کر رہا ہے۔ جو میڈیا ما ضی میں جوڑنے کا کام کرتا تھا آج وہ توڑنے کا کام کر رہا ہے۔ تبلیغی جماعت کے تنظیم نے اس لا ک ڈاؤن کے درمیان سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا تاکہ فرضی خبروں پر روک لگائی جاسکے۔ فیک نیوز نے مسلمانوں کو بد نام کر دیا ہے ۔جبکہ حقیقت سے اس کا کوئی لینا دینا نہیں۔ کی جگہوں پر پولیس کو وضاحت کرنی پڑی کے جماعت نے یہ کام نہیں کیا ہے۔ آخر یہ کون لوگ ہیں جو کرونا کے نام پر مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلا رہے ہیں۔ آخر وہ ملک کے سیکولرزم کی دھجیاں کیوں اڑا رہے ہیں۔ اس کے پیچھے کس کی کارستانی ہے۔ حال ہی میں امریکہ کی ٹائم میگزین میں ہندوستان کے مسلمانوں کے حوالے سے ایک رپورٹ شائع کی ہے جس کی سرخی ہے ، ہندوستان میں مسلمان ہونا پہلے ہی خطرناک تھا ، پھر کورونا وائرس بھی آگیا۔ فرضی خبروں کا ہی یہ اثر ہے کہ اس میگزین کو یہ سرخی لکھنا پڑا۔ سوشل میڈیا پر ایک ٹیگ چلایا گیا اور اس لائن میں کر ونا جہاد لکھا گیا۔ وہی ٹی وی کے اینکر رو ں نے کو رونا بم کا حوالہ دے کر تبلیغ کو جوڑا۔ جماعت کو جوڑا نفرت تھی یہ لاو ا وہ پڑھے لکھے صحافیوں کی ہیں جو اس ملک کے مسلمانوں کو معاش، سیاسی سماجی طور پر تباہ و برباد کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ اگر یہی حال رہا تو اس صدی میں مسلمان دنیا میں کسی کو منہ دکھانے لائق نہ رہے گا کیونکہ اسے مسلمانوں اور اسلام کی سبہ برباد کرنے پر گودی ،دلال، سنگھی اور طالبانی میڈیا جو زہریلی ز با ن ایک خاص فرقہ کے لئے یے استعمال کر رہی ہے ۔تاکہ اس کے لئے ہندوستان کی سرزمین میں تنگ کردی جائے۔ واضح ہو کے لوگ ڈا ون کا تیسرا مرحلہ جو چودہ دنوں کا ہے وہ 17 مئی کو اختتام کو پہنچے گا ۔ممکن ہے کہ اس کے بعد بھی لوگ ڈاؤن ہندوستان میں توسیع کر دی جائے گی۔کیونکہ کرونا مریضوں کی تعداد تیزی سے ہندوستان میں بڑھ رہی ہے۔