Random Posts

Header Ads

The 100-year-old institution, the Khilafah Committee Calcutta, has not been registered to date

 

the Khilafah Committee Calcutta

سو سال کا قدیم ادارہ ،خلافت کمیٹی کلکتہ کا رجسٹریشن آج تک نہیں ہوا 

محمد شمیم حسین ۔

گاندھی جی نے ہندوستان میں1920 میں خلافت تحریک کی داغ بیل ڈالی  تھی انگریزوں سے آزادی حاصل کرنے کے لئے ، اسے دیکھتے ہوئے کولکتہ میں بھی گاندھی جی کے حمایت کے لئے کلکتہ خلافت کمیٹی کی بنیاد رکھی گئی۔تاکہ  مسلمانوں پر اگر کوئی آفت بلا آئے تو اسے روکا جاسکے۔ ملا جان اس تنظیم سے جڑے رہے اپنی آخری سا نس تک۔ ان کی وفات  1972میں ہوئی ۔ پچاس  سال گزر گئے ۔آ ج تک کمیٹی کے صدر سیکریٹری اور موجودہ ممبروں نے اس ادارہ کو سوسائٹی ایکٹ کے تحت 

رجسٹر ڈ تک نہیں کرایا آخر اس کی وجہ کیا ہے۔  کیوں  کمیٹی کے صدر سکریٹری اور ممبران نے یہ ضروری نہیں سمجھا۔ حیرت کی بات  تو یہ ہے کہ ہندوستان میں ایک شناخت ہی خلافت کمیٹی کلکتہ کی۔  ،یہ وہ جگہ ہے جہاں نا جانے کتنے مجاہد آزادی تشریف لائے۔ ان میں محمد علی جوہر،مولانا شوکت علی اور گاندھی جی مولانا آزاد ،علی برادران ان لوگوں کا نام خاص طور سے لیا جا سکتا ہے۔ جو خلافت تحریک کے دوران کلکتہ آئے اور یہاں  وہ اس ادارہ میں رکے۔ا د ارہ کے سا بق اور موجودہ ممبران حضرات اتنا غافل ہیں کہ ادارے کا رجسٹریشن آ ج تک، سو سال گزر جانے کے بعد بھی نہیں کرایا۔ جبکہ علاقائی لوگ بار بار کہتے رہے کہ ادارہ کار جسٹر یشن ہونا چاہیے۔  آج ایک معمولی کلب کو بھی سوسائٹی ایکٹ کے تحت رجسٹریشن کرایاجاتا ہے۔ لیکن  ہمارے اکابر نے یہ ضروری نہیں سمجھا کہ وہ اس ادارے کا ر جسٹریشن سوسائٹی ایکٹ کے تحت کرائیں۔  اس ادارے سے ریاستی وزیر جاوید احمد خان بھی جڑے ہوئے ہیں ۔ قاری فضل الرحمن ، شفیق قاسمی  مسجد ناخدا کےامام و خطیب اس کمیٹی کے صدر شاکر رندیریں اور  سیکریٹری سید صاحب بھی غفلت کی نیند ا ج تک سوتے رہے ہیں۔  

خلافت تحریک نے ملک کی آزادی میں اہم رول ادا کیا تھا۔ ملا جان جب تک زندہ رہے اس کمیٹی کو تقویت پہنچاتے رہے۔ 1950 اور 1964 میں خلافت کمیٹی کے رہبروں نے جو کام کیا وہ سنہری حرفوں سے لکھے جانے کے قابل ہے ۔ اس دوران کلکتہ میں جو فسادات ہوئے تھے ۔ اس موقع پر خلافت کمیٹی کلکتہ نے بہت اہم رول ادا کیا تھا۔ایک زمانے میں مچھوا پھل منڈی کے بڑے بڑے تاجر اس تنظیم سے جڑے رہے۔  آج یہ تنظیم ایسے لوگوں کی گرفت میں ہے جہاں ممبر ساجی بھی مکمل نہیں ہو پا رہی ہے۔  اس کمیٹی میں 27 ممبروں کی گنجائش ہے۔  لیکن ہر میٹنگ میں کئی برسوں سے صرف اور صرف آدھے ممبر ہی نظر آتے ہیں میٹنگ کے دوران میں ان میں سے بھی آدھے موجود رہتے ہیں۔ حیرت کی بات ہے کہ کلکتہ شہر میں ایک فعال تنظیم ممبر سازی کے لیے ترس رہا ہے ۔آخر ممبروں کی تعداد کے لئے بقیہ ممبران اس ادارے کے صدر  اور سیکریٹری کیوں آگے نہیں آرہے ہیں ۔

مرکزی کولکاتا کے  پرا یم لوکیشن کولو ٹولہ میں اس وقت کے مئیر سبرتو مکھرجی نے اپنے دور میں  خلافت کمیٹی کو تقریبا تین سے ساڑھے تین کٹھا ز مین خلافت کمیٹی کو دی تھی۔ لیکن آ ج تک زمین خالی ہی نہیں بےکار پڑی ہے۔اگر اس زمین کا صحیح استعمال کیا جاتا ایک چار منزلہ عمارت بناکر ایک کمیو نٹیی ہال ایک نرسنگ ہوم  ایک ایجوکیشن ریڈنگ روم طالبعلموں کے لیے بنایا جا سکتا ہے۔لیکن 15 سال سے زیادہ وقفہ گزر چکا یہ زمین یوں ہی خالی پڑی ہے ۔مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ  ایک دن آئے گا جب سماج دشمن عناصر کا وہ اڈا بن جائے گا فی الحال ناقابل بیان کام ہورہے ہیں اور یہی حال رہا تو زمین بھی ہاتھ سے نکل جائے گی ۔امسال ایک شرارت کے تحت ایک جھوٹی خبر تصویر کے ساتھ شائع کی گئی تھی۔ بہی خو اہ کو یہ یاد ہوگا کہ 2020 میں کورونا کے دوران  مسجد میں اور ریڈ روڈ پر نماز پڑھنے کی اجازت نہیں دی گئی تھی ۔حکومت کے گائیڈ لائن اور پروٹوکول کا خیال رکھتے ہوئے ۔ روڈ پر عید الفطر کی نماز نہیں پڑھی گئی تھی۔ برسوں سے ریڈ روڈ پر پر عید اور بقرعید کی نماز کی ذمہ داری خلافت کمیٹی کلکتہ کے زیر اہتمام کیا جاتا ہے۔اس کے لئے پورے ملک میں کولکا تا کے ریڈ روڈ کو جانا جاتا ہے۔26 جنوری اور 15 اگست کو اسی ریڈ روڈ پر فوجی پریڈ ہوتا ہے۔  کولکاتا سے شائع ہونے والا ایک ہندی اخبار راجستھان پتریکا نے فرنٹ پیج پر ایک خبر  ریڈ روڈ پر نماز پڑھنے کی تصویر بھی شائع کی۔ اس موقع پر خلافت کمیٹی نے اخبار کے مالکان پر عزت  ہتک کا دعویٰ  تک پیش نہیں کیا۔ لیکن جو سازش اس اخبار نے مسلمانوں کے خلاف کی تھی۔ اس سے ملک میں افراتفری کا ماحول پیدا ہو سکتا تھا ۔ملی ادارہ ہونے کی صورت میں خلافت کمیٹی کے صدر اور سیکریٹری اور دیگر ممبران کو اس پر سخت نوٹس لینا چاہیے تھا ۔ ان لوگوں کو  سامنے انا ہوگاجو سماج کے تئیی   کام کرنے کا جذبہ رکھتے ہو ں۔ کلکتہ شہر کے بارسوخ افراد سامنے آ آئیں اور اس تنظیم کو استحکام بخشنے کا کام کریں۔ ورنہ ایک دن یہ ادارہ بھی تاریخ کا حصہ بن جائے گا۔  کلکتہ کے نقش  سے اس ادارے کا نام و نشان تک مٹ جائے گا ۔