ملک کی تحفظ کے لئے یو پی اسمبلی میں یو گی کو ہرا کر مودی اور آر ایس ایس کو شرمسار کیجئے۔
محمد شمیم حسین ۔ کولکاتا
بنگال اسمبلی انتخاب کے بعد بی جے پی نے اپنی پوری طاقت یو پی اسمبلی الیکشن میں جھونک دی ہے۔ وہ یہ اچّھی طرح جانتی ہے کہ 2024 لوک سبھا انتخاب سے پہلے 2022 کا یو پی اسمبلی انتخاب میں بی جے پی کی جیت کتنی اہمیت کی حامل ہے کیوں کہ دلی کا راستہ یو پی سے ہی ہوکر گزرتا ہے۔ حقیقت میں ہندوستان کی جمہوریت کی بقا کے لئے 2022 کا یو پی اسمبلی الیکشن میں بی جے پی کو ہرانا بےحد ضروری ہے۔ لیکن یہ کیسے ممکن ہوگا ؟ کیونکہ جب جب انتخاب اتا ہے ، بی جے پی ملک کا ماحول اور فضا خراب کرنے کی کوشش زور و شور سے کرتی ہےاور الیکشن کو ذات پات (دھرم) مذہب کے نام سے جوڑ دیتی ہے۔ ملک میں فساد کا ماحول بن جاتا ہے
ہندو مسلم، مندر مسجد مدرسے اور ہندوستان ۔ پاکستان کا رنگ ماحول میں گھول دیا جاتا ہے۔ آپکو یاد ہوگا 2019 کا لوک سبھا الیکشن فضا کو بگاڑنے کے لئے 14 فروری 2019 کو پلوامہ حملے میں جس میں کم و بیش 40 فوجی جوان شہید ہو گئے۔ وہ خوشی خوشی اپنے گاؤں آرہے تھے جب یہ حادثہ رونما ہوا۔ بی جے پی کے تمام لیڈروں نے اسے دہشت گرد انہ حملے قرار دیا۔اور پرچار کے دورانِ بی جے پی نے اس حادثے کا سیاسی فائدہ اٹھایا۔
اور اس طرح بی جے پی نے تین سو سے زائد لوک سبھا سیٹ جیت کر دوسری بار اقتدار میں ائی۔آج تک CBI تفتیش نہیں کرائی پلوامہ حملے کی۔
2014 سے 2019 اور 2019 سے 2021 مئی تک اس حکومت نے اپنے سات سال مکمل کر لیئے
ان سات برسوں میں اس ملک نے وہ سب دیکھا جو گزشتہ 60۔65 برسوں میں اس ملک کے عوام نے نہیں دیکھا تھا۔
مسال کے طور پر مہنگائی ، ہے روزگاری، جی ڈی پی میں حد سے زیادہ گراوٹ،نوٹ بندی ، جی ایس ٹی ،روپئے کی قدر میں گراوٹ۔
اس دوران کالا دھن تو واپس نہیں آیا بلکہ کروڑوں ہزار روپے اور جمع کرائیں گئے۔ نہ توکالادھن آیا اور نہ ہی وجے ملیہ، مہول چو کسی اور نیرو مودی اور اسکے گر غے کو گرفتار کیا جا سکا۔اگر چہ انکی جائیداد کو حکومت نے قرق کیا ہے۔
ملک میں جب کورونا کی آمد ہوئی تو مودی سرکار الیکشن میں مشغول ہو گئی۔تب پتہ چلا ہمارا ملک کہاں جا پہنچا ہے۔ہرطرف ہاہا کار مچا تھا تب مدھیہ پردیش میں ایم ایل اے کی خرید و فروخت کیا جا رہا تھا۔ کویڈ دور میں اسپتال میں بیڈ نہیں تھے اور نہ ہی آکسیجن ، وینٹی لیٹر مہیا کرا ے گئے۔
یہ سرکار عوام کی تحفظ کے لئے آج تک کوئی منصوبہ نہیں بنا پائی ۔ تاریک وطن مزدوروں کو بیچ راستے پے لا کھڑا کر دیا۔ایک طرف لوگ۔بھوک سے مرنے لگے تو دوسری طرف گھر لوٹنے کے لئے مودی حکومت نے کوئی معقول انتظام ہی نہیں کیا۔ نہ جانے کتنے لوگ راستے میں ہی دم ٹور دیئے۔
حد تو تب ہوگئی جب اسپتالوں میں آکسیجن تک مریضوں کو مہیا نہیں کرایا جا سکا۔لاکھوں لوگ۔ ما رے گئے۔ برننگ گھاٹ میں مردہ جلانے کے لئے لکڑی نہیں اور صاحب ( مودی ) بہار،بنگال،آندھرا پردیش،کرناٹک کیرل میں پرچا ر اور انتخاب میں مست تھے۔
گنگا میں لاشیں تیر رہی تھی یو پی سے بنگال تک یہ منظر ملک کے۔130 کروڑ لوگوں نے آزادی کے 74 سال میں کانگریس کے دور میں کبھی نہیں دیکھا تھا ۔ اور مودی حکومت من کی باتیں کرتےرہ گئ۔
بار بار کانگریس کو قصور وار ٹھرانے والی بھاجپا پارٹی اپنی ناکامی کو چھپانے کے لیے کانگریس کو ہی مجرم قرار دے رہی ہے۔
ملک میں جب کورونا کی آمد ہوئی تو مودی سرکا ر الیکشن میں مشغول ہو گئی۔تب پتہ چلا ہمارا ملک کہاں جا پہنچا ہے۔ہرطرف ہاہا کار مچا تھا تب مدھیہ پردیش میں ایم ایل اے کی خرید و فروخت کیا جا رہا تھا۔
مودی نے بڑی تیاری کے ساتھ دیش کو بیچنے کا راستہ ہموار کر لیا ہے۔ریل ،ایل ائی سی،ایئر انڈیا ، اؤ اين جی سی اور بی ایس این ایل وغیرہ وغیرہ فروخت کر دیا ہے۔
آج پورے ملک کے کسان راستے پے آگئے ہیں لیکن حکومت ایم ایس پی کے معاملے میں ہٹ دھرمی پے اتر ائی ہے۔
اب مسلم ووٹروں کو چاہیے کہ وہ کسی بھی ایک سیکولر پارٹی کے امیدوار کو اپنے حلقہ سے کامیاب کرے۔یو پی میں تقریباً 120 سیٹوں پر مسلم ووٹر اپنے دم پر کسی بھی غیر بی جے پی امیدوار کو اپنا قیمتی و وٹ دے کر کامیاب بنا سکتے ہیں۔
اب یہ فیصلہ یو پی کے مسلم دانشوروں علماء کرام پڑ ھے لکھیں نوجوانوں کو کرنا ہے جو بے روزگار ہیں اور ایک تحریک چلا نا ہے کہ اس ملک کو ہم سب کو ملکر ایک ہو کر اسکی ایکتا ، بھائی چارگی ، امن و امان کے ساتھ گنگا جمنی تہذیب کو۔ بچاے رکھنا ہے۔اس دیش سے فرقہ پرستی کو ختم کرنا ہے۔ رام راجیہ لانا ہے اور راج دھرم کا پا لن کرنا ہوگا ۔منافرت کی بیج بو کر ملک کو ترقی یا فتہ نہیں بنایا جا سکتا ہے۔
یو پی میں یو گی ہوں یا مرکز میں مودی دیش سے بڑا کوئی نہیں ہے ۔ در اصل ملک کو ہندو راشٹر بنانے کا جو سپنا آر ایس ایس نے دیکھا ہے ۔BJP کی حکومت اسے عملی جا مہ پہنانے کی کوشش کر رہی ہے۔اس دیش کو فرقہ پرستوں سے بچا نا ہے تو 2022 میں جن پانچ ریاستوں میں الیکشن ہو نے ہے۔بی جے پی کو وہاں سےنکال پھیکے۔واضح ہو کہ 2016 یو پی اسمبلی الیکشن میں BJP کا 403 میں سے 325 سیٹوں پر قبضہ ہے۔لیکن اس وقت بی جے پی کے اسمبلی ممبران میں ایسی انتشار ہے اپوزیشن پارٹیاں اس کا فائدہ اٹھا سکتی
Md Shamim Hossain Kolkata
9433893761