اردو ادب کا شمس غروب ہوگیا
علمی خزانے کا ایک قیمتی ہیرا ادبی دنیا میں تا قیامت زندہ رہیگا۔
محمد شمیم حسین۔۔۔ کولکاتا
سال 2020 تکلیف دہ اور صبر آزما سال رہا ۔ برصغیر کے معروف ادیب اور شاعر ،دانشور و مفکر، نا قد و محقق ، داستان، ناول نگار ، افسانہ نگار ، مبصر ، ا دبی صحافی اور مقرر شمش ا لر حمان فاروقی 25 دسمبر 2020 کو ہمیں داغ مفارقت دے گئے ۔ اس اندوہناک خبریں ملنے کے بعد ایسا لگا جیسے زمین کھسک گئی ہو ۔ فا ر و قی صاحب کی وفات اردو ادب میں ایک عہد کا خاتمہ ہے۔ ہر کیفیت کو لفظوں میں بیان نہیں کیا جاسکتا ۔
پیدائش اور تعلیمی سفر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شمس الرحمن فاروقی کی پیدائش 15/ جنوری 1934
میں پرتا ب گڑھ (یوپی ) میں ہوئی آپ نے 1953 میں الہ آباد یونیورسٹی سے انگریزی میں ایم اے فرسٹ کلاس میں پاس کیا۔ 1958 میں سول سروس کا امتحان پاس کیا ۔ 1960 سے 1968 تک پوسٹل سروس میں بحیثیت پوسٹ ماسٹر رہے۔ 1994 تک وہ نئی دہلی میں پوسٹل سروس بو ر ڈ کے رکن بھی رہے۔ امریکہ کے پینسلوینیا یونیورسٹی میں میں ساؤتھ ایشن ریجنل اسٹڈیز سنٹر کے پارٹ ٹائم پروفیسر بھی رہے۔ 2005 میں موصوف NCPUL کے چیئرمین بھی رہے۔ 1960 سے انہوں نے اردو ادب میں جو کام کیے وہ قابل ستائش ہے۔ تحقیق کا میدان ہو یا تنقید کا میدان ہو ،کلاسیکی شاعری پر قلم اٹھانے کی بات ہو یا ناول نگاری یا افسانہ نگاری کی بات فاروقی صاحب نے ادبی صحافت کے کینوس کو وسیع کیا ۔ قاری کو متحرک کیا ۔ تخلیق مہمیز دی بلکہ ادبی صحافت کو بھی عصری تقاضوں اور مطالبات سے ہم آہنگ کیا۔ ان کے تحریروں میں جدیدیت کا رجحان دیکھنے کو ملتے ہیں۔ فاروقی صاحب کے علمی قابلیت کی اگر ہم بات کرے تو دو سو سال پرانی شعروں سے ادبی شاعری دلائل پیش کرتے تھے کہ سامنے والا لاجواب ہو جاتا تھا۔ اس کی اصل وجہ عالمی ادب پر گہری نظر اپنی زبان کے علاوہ وہ دوسرے زبان اور مسائل میگزین و ادب کے کتاب میں کیا کچھ لکھا جا رہا ہے اس پر ان کی گہری نظر رہتی تھی۔ عالمانہ اتنی گہری ہوتی کہ کوئی بھی ادبی موضوع ہو' کوئی واقعہ و تاریخی ادبی زبان سے متعلق ، کوئی بھی لسانی خامیاں یا کوئی اور پہلو ان کی نظروں سے پوشیدہ نہیں رہتا۔ اس کی اصل وجہ انکا وسیع مطالعہ رہا ہے
موصوف نے ویسٹرن کلچر کو اردو ادب سے ہمکنار کیا ۔ انہوں نے اپنی تنقید کا محاسبہ یورپ کلچر کے ساتھ کیا ۔و ہ تا عمر اردو ادب کی خدمت کرتے رہے۔ تاکہ اردو ادب کا معیار بلند سے بلند تر کیا جاسکے۔ وہ یہ قطعی نہیں چاہتے تھے کہ اردو کسی بھی طرح انگریزی فرانسیسی اور جرمن ادب سے پیچھے رہ جانے۔
ترقی پسند مصنفین میں انکا مقام
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔,۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شمس الرحمن فاروقی ترقی پسند ادب کے سرگرمیوں پر تنقیدی نگاہ رکھتے اور ادبی تنقید کے مغربی اصولوں کو اپنی تحریروں میں ملحوظ نظر رکھا ۔ ' شب خون ' کے مشمولات ، تنقید اور تحقیق کے حوالے سے جو خلا پیدا ہوئی ہے اسے پورا کرنا مشکل ہے ۔ دراصل 'شب خوں ' سے انہوں نے دو نسلوں کی آبیاری کی ہے۔
" شعر شور انگیز " کی تصنیف کرکے جہاں میر تقی میر کی تفہیم کو آسان کیا وہی موصوف نے " کئی چاند تھے سر آسماں" لکھ کر مسلم معاشرے کی عروج و زوال بالخصوص مغلیہ دور کی تاریخی داستان رقم کی. ترقی پسند مصنفین اور
جدیدیت اردو ادب میں شمس الرحمن فاروقی کا نمایاں نام رہا ہے۔
اردو فکشن میں انکے کا ر نا مے
۔۔۔۔۔۔۔۔,۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔,۔۔۔۔
اردو فکشن میں مرحوم نے اپنی تخلیقات سے گہرے نقوش اور اثرات مرتب کیے۔ بیک وقت مغرب اور مشرق کے کلاسیکی شاعری اور جدید ادبی سرمایے اور رجحانات پر غیر معمولی نظریں رکھتے تھے ۔ ' سوار ' کی ا شا عت سے موصوف نے خود کو ایک اچھے افسانہ نگار ہونے کا ثبوت پیش کیا۔
2006 میں ان کی لکھی ہوئی ناول " کئی چاند تھے سر آسماں" نے دھوم مچا دی۔ اس نا و ل میں شمس الرحمٰن فاروقی نے مغلیہ تاریخ دور سلطنت کی تہذیب و ثقافت پر روشنی ڈالی ہے۔
ادبی خدمات ایک نظر میں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ ۔۔ ۔۔۔
بحیثیت مصنف اپ نے درجنوں کتابیں تصنیف کیں۔ جن میں تحقیقی و تنقیدی کتابیں ، اثبات و نفی، اردو غزل کے اہم موڑ، اردو کا ابتدائی زمانہ ،
ا دبی تہذیب و تاریخ کے پہلو، افسانے کی حمایت میں ، انداز گفتگو کیا ہے، تعبیر کی شرح، تفہیم غالب، شعر شور انگیز،
چا ر جلدوں پر مشتمل ہیں۔ شعر غیر شعر اور نثر ،خورشید کا سامان سفر، صورت و معنی سخن، غالب پر چار تحریریں، گنج سو ختہ، لغات روزمرہ، ہمارے لئے منٹو صاحب ، لفظ و معنی ، نئے نام نغمات حریت، عروج آهنگ اور بیان ،
کئی چا ند تھے سر آسماں( ناول) جو انہوں نے اپنی وفات سے تین سال قبل لکھے تھے۔ آسمان محراب (شاعری) سوار ( افسانہ) جیسےکتابوں کے آپ خالق رہے ہیں۔
اردو کی آبیاری کے لیے بے لوث خدمات
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔,۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اردو کے رسم الخط سے وہ قطی چھاڑ کرنا پسند نہیں کرتے تھے۔ ان کی کوشش ہوتی تھی کہ وہ اردو کے ساتھ انگریزی زبان کو کو یا کوئی اور زبان کا استعمال نہ کیا جائے۔ یہی وجہ تھی کہ جب وہ اردو کونسل کے چیئرمین بنائے گئے تو تو سب سے پہلے انہوں نے اردو کے
بہتر ی کے لیے درپن کے اشاعت روک دیئے۔ انہوں نےکئی ایسے کام کیے جو آج نہ صرف یاد کئے جاتے ہیں بلکہ کونسل کے دوسرے چیئرمین اسی پر عمل بھی کرتے ہیں ۔ انہوں نے درپن کو بند کروایا کیونکہ اس میں اردو رسم الخط سے چھیڑچھاڑ کی جاتی تھی اور اردو رسم الخط کے ساتھ انگریزی اور ہندی کے الفاظ لکھے جاتے تھے۔
فاروقی صاحب کا کہنا تھا کہ اگر زبان کو بچانا ہے تو اس کے رسم الخط کے ساتھ چھیڑ چھاڑ نہ کیا جائے اور انگریزی و ہندی زبان کی جگہ اردو زبان کا ہی استعمال کیا جائے ۔ اس کے لیے انہوں نے اپنے وقت میں کافی محنت کی اور فرہنگ پر ایک کتاب لکھ ڈالی جو روز مرہ میں بولے جاتے تھے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ علمی خزانہ کے ایک قیمتی ہیرا تھے۔ اردو ادب کی دنیا میں علمی و ادبی لسانی اور دیگر علوم و فنون کا اس طرح جواب پیش کر تے کہ سامنے والا لاجواب ہو جاتا ۔اردو ادب کا ایسا رمز سناس کے اردو دنیا ان کی علمیت کا لو ہا تسلیم کرلیا ۔ وہ بہت پیار سے ادبی نقطے کو کو اپنے چاہنے والوں کو آسانی سے سمجھا دیتے تھے۔ وہ بہت نرم گو تھے لیکن زبان کے معاملے میں کسی کو خاطر میں نہیں لاتے۔
ادبی انعامات سے سرفراز کیے گئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شمس الرحمن فاروقی صاحب کے اردو خدمات کو دیکھتے ہوئے یے 1986 میں ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ سے نوازا گیا جبکہ 1996 میں سر سو تی سمان
سے بھی آپ کو سرفراز کیا گیا۔ 2009 میں پدم شری ایوارڈ حکومت کی جانب سے آپ کو دیے گئے ۔آپ کے موت اردو کی موت ہے ۔صدیوں بعد آپ جیسے ادیب دنیا میں پیدا ہوتے ہیں۔ آپ کی خلا ہمیشہ اردو نوازوں کے دلوں میں ر ہے گی۔۔