Random Posts

Header Ads

Irfan ‎Khan ‎was ‎a ‎best ‎actor ‎in ‎indian ‎film ‎industry

ہندی فلم انڈسٹری کا گوہر عرفان خان ، سسٹم کے خلاف آواز بلند کرنے والا آرٹسٹ تھا 

محمد شمیم حسین۔ کولکاتہ


سال 2020  میں کئ  مشہورومعروف با لی ووڈ ،
ٹا لی  ووڈ اور ہالی و و ڈ فلم انڈسٹری کے اداکار و اداکارہ اور فنکار  کی موت کے لیے یاد رکھیں جائیں گے۔جہاں کورونا سے 2020 کو ہم نہیں بھلا سکتے ۔ وہیں اداکار عرفان خان کو ہم نہیں بھلا سکتے۔
ہندوستان میں ایسے بہت کم اداکار ہے جن کی شہر ت بیک وقت قومی اور بین الاقوامی ملکوں میں ہوتی ہو۔ انہیں اداکاروں میں سے عرفان خان ایک تھے۔
 جو اب ہمارے بیچ نہیں رہے ۔ 29/ اپریل 2020 کو اس دنیا سے کوچ کر گئے۔ ہندی فلم  انڈسڑی میں عرفان خان نے بہت کم وقت میں جو مقبولیت حاصل کی وہ بہت کم اداکاروں کو نصیب ہوتی ہے۔  عرفان خان اگرچہ آج ہمارے بیچ نہیں ہیں لیکن ان کی یادیں  ہمارے دلوں میں ہمیشہ رہے گی۔ انہوں نے بہت کم وقت میں فلم انڈسٹری کو جو فلمیں دیں۔ وہ ایک عرصے تک ان کی اداکاری کی وجہ سے یاد رکھی جائے گی۔ 54 سال کے عمر میں عرفان خان کینسر جیسے موذی مرض سے جنگ لڑ رہے تھے۔  انہوں نے 2018 میں ٹیومر کا آپریشن امریکہ کے ایک اسپتال میں کروایا تھا۔  وہ لگ بھگ ڈیڑھ سال تک فلموں سے دور رہے۔اور علاج کرتے رہیں۔ دوبارہ فلم انڈسٹری میں ان کی واپسی ہوئی اور ایسا نہیں لگتا تھا کہ وہ کینسر سے جنگ لڑ کر واپس آئے ہوں۔  باڈی لینگویج، ڈائیلاگ اسپیچ قابل ستائیس ہوا کرتے تھے۔ انکی پیدائش 7 جنوری 1967 کو جئےپور میں ہوئی تھی۔

کامیاب فلموں کی ایک لمبی فہرست
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہندی میڈیم ،پیکو، بلو، بلیک میل، مقبول،  لائف آف پائی،  پان سنگھ تومر،  لانچ باکس، دی نیم سک، حاصل جیسی فلموں نے عرفان خان کو شدا کے لئے امر بنا دیا ۔انہوں نے ان فلموں میں اداکاری کے جوہر دکھائے۔ وہ قابل تعریف ہے ۔ ان کی مسکراہٹ، اسکرپٹ کی جان ہوا کرتی تھی ۔ انہوں نے اپنی اداکاری کے ساتھ کبھی ناانصافی نہیں کی۔ فلم انڈسٹری میں 20 سال تک انہوں نے اسٹر گل کیا لیکن وہ ہار نہیں ما نے۔ فلم ' حاصل ' سے ان کو فلم انڈسٹری میں ایک پہچان ملی۔ اس کے بعد عرفان خان کبھی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھے۔ ہالی ووڈ کے ڈائریکٹر ا و با ڈ و ورنے نے عرفان کی موت کی خبر سن کر تعزیتی پیغام  میں کہا کہ میں ان کا بہت بڑی پرستار تھی۔  ان کے ساتھ کام کر کے مجھے بہت کچھ فن اور اداکاری کے متعلق سیکھنے کو ملا۔  انہوں نے اپنے ٹویٹ میں کہا کہ عرفان خان بہت جلد الوداع کہہ گئے۔ انہوں نے کہا جب وہ پردہ پر ہوتے تو ان کے پرستار اپنی آنکھیں جھپکا نہیں سکتے تھے ۔عرفان کی موت سے چار دن قبل ان کی والدہ کا راجستھان میں انتقال ہوگیا ۔ لا ک ڈاؤن کی وجہ  سے عرفان  اپنی والدہ  کے جنازے میں شریک نہ ہوسکے ۔موت سے قبل انہوں نے اپنی ماں سے ایک وعدہ کیا تھا ۔جسے انہوں نے نبھایا ۔ ما ں سے انہوں نے یہ وعدہ کیا تھا کہ میں بہت جلد تیرے پیچھے آؤنگا۔ تین دن بعد وہ اپنے والدہ کے پیچھے آخر کار ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اس دنیا سے رخصت ہو کر چلے گئے۔اور اس طرح انہوں نے اپنی ماں سے کیا ہوا و عد ہ پورا کیا۔
 بہت کم لوگ اس بات سے واقف ہیں کے عرفان خان ایک اچھے کرکٹر بھی رہ چکے ہیں۔  یہ ان کی بدقسمتی تھی کہ کرنل سی کے نائیڈو کرکٹ ٹورنامنٹ میں سلیکٹ ہونے کے باوجود ٹیم کا حصہ اسلئے نہ بن سکے کیونکہ ان کے پاس جےپور سے اجمیر جانے کے لیے دو سو روپیے ٹکٹ کے لئے کرا یہ کے لئے رقم نہیں تھے۔ تب انہوں نے یہ فیصلہ کرلیا کہ وہ کرکٹر نہیں بن سکتے ۔ اس کے بعد انہوں نے فیصلہ کیا کے فلم کی دنیا میں وہ دھمال کر کے رہیں گے  انہوں نے اداکاری کا باقاعدہ تربیت حاصل کی۔ اس کے بعد انہوں نے واقعی فلم انڈسٹری میں دھمال کر دیا ۔فلم انڈسٹری کے ان اداکاروں کے لیے انہوں نے ایک مثال پیش کیا۔  ہیرو کا ہی نہیں بلکہ سائیڈ رول میں بھی معاون اداکاری کرتے ہوئے انہوں نے اپنی موجودگی کی کسی اسٹار سے کم نہیں ہونے دیا اور اپنا لوہا منوا لیا۔

بین الاقوامی فلمی سفر
,۔۔۔۔۔۔۔۔۔,۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہالی ووڈ سے جو سفر  انہوں نے 1987 میں شروع کیا تھا وہ سفر بالی وڈ تک 2020 میں جا کر رکا۔ انہوں نے ایک کے  بعد دیگر  کئی انگلش فلموں میں  اداکاری کے جوہر دکھا کر لوگوں کو حیرت میں ڈال دیا۔ جیسے سلم ڈاگ ملینیئر، جراسک پارک، دی واریر ر ،انفرینو،دی امیجنگ اسپائیڈر، لائف آف پائی میں اداکاری دکھا کر خوب شباسی بٹوری ۔اسطرح انہوں نے بالی ووڈ میں بھی اداکاری کے جوہر دکھا کراپنا لوہا منوایا۔ 
 وہ تھیئٹر کی دنیا میں نام کما چکے تھے ۔ اس کے بعد انہوں نے بمبئی فلم انڈسٹری میں قدم جمایا عرفان خان فلم دیکھنے کے شوقین تھے۔ اور انہوں نے یہ ٹھان لیا تھا  کہ ایک دن وہ فلم انڈسٹری کا سب سے بڑا اداکار بن کر فلم اسکرین پر چھا جائیں گے۔ 
 وہ ایک زمیندار اور پٹھان گھرانے میں پیدا ہوئے ایک ایسے گاؤں سے نکل کر ممبئی پہنچے جہاں سے بہت کم لوگ کامیاب ہو پاتے ہیں ۔ بچپن سے ہی
 پتنگ بازی اور فلم کے شوقین تھے ۔جبکہ کرکٹ کے وہ اچھے کھلاڑی تھے۔  بقول ان کی والدہ وہ بہت ضدی تھے۔ ایک بار جو تھا ن لیا وہ کر کے دکھاتے تھے۔ شاید یہی وجہ تھی کہ انہوں نے فلم انڈسٹری میں اپنا سکہ جمایا اور اپنی لگن اور محنت سے کامیاب بھی ہوئے۔

کیریئر کی شروعات ٹی وی سیریل سے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔,۔۔۔۔۔۔۔۔۔,۔۔۔۔۔۔۔۔
90 کی دہائی میں عرفان خان نے اپنی کیرئیر کی ابتداء، ٹیلی ویژن سریل سے کی۔ مثلا بھارت ایک کھوج،چندر کانتا ،سری کا نتا، چا نکیہ، رہے گی اپنی بات، اسپرس، ٹوکیو ٹرائل وغیرہ ۔
اس کے علاوہ کئ ٹیلی فلم میں میں بھی اداکار ی کے جوہر دکھائیں۔ لال گھاس پر نیلے گھوڑے اور ڈ ر جیسی ٹیلی فلم میں اداکارانہ جوہر دکھائے۔ٹی وی سیریل میں موصوف نے اپنی ادکا ری کے فن سے انمٹ چھاپ چھوڑی۔عرفان نے 1995 میں ستا پا  ڈ ی سکدر سے شادی کر لی جن سے دو بچے ہیں۔ستا پا نے آخری وقت میں بہت ساتھ  دیا۔انہوں نے نئے سال کے موقعہ پر کہا اس سال عرفان خان کے بغیر کچھ اچھا نہیں لگ رہا ہے۔گزشتہ سال 2020 میں وہ میرے ساتھ تھے اس سال نہیں ہیں۔

لاک ڈاؤن کے وجہ سے سوگوار آخری دیدار کے لیے ترس گئے۔
,۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لاک ڈاؤن میں ممبئی فلم انڈسٹری میں یہ پہلی موت تھی۔ان کے فین آخری دیدار بھی نہ کر سکے۔ وجہ تھی لاک ڈاؤن جو ملک میں 25 مارچ سے لگا دیا  گیاتھا۔تدفین کے موقع پر محض 40 ۔ 50 لوگ ہی شا مل ہوئے۔ ہزاروں کی تعداد میں سوگوار ٹویٹ کرتے رہے جن میں فلم انڈسٹری سے تعلق رکھنے والے درجنوں ایکٹر یس اور ایکٹر س  شا مل رہیں۔امیتابھ بچن، عامر خان، شاہ رخ خان،جوہی چا و لہ 
اجے دیوگن،نوازدیں صدیقی، مہیش بھٹ، ایوس مان کھرانہ،سردھا کپور، راج کمار راؤ، تپسی پنّو، مینڈی کلنگ اور پی ایم، مودی نے اظہار تا سف کیا۔پوری انڈسٹری عرفان خان کی موت پر غمزدہ رہا۔
پرینکا گاندھی نے اپنے ٹویٹ میں کہا کہ عرفان خان کی بیمثال اداکار ی جیسی دوسری مثال ملنی مشکل ہے۔
عرفان خان کی اداکار ی نے زبان، قوم اور مذہب کی سرحدوں کو توڑتے ہوئے اداکار ی کا لہجہ بنا یا ۔جس نے فن اور تاثرات  کے ذریعہ پوری انسانیت کو متحد کرنے کی اپنی سے کوشش کی ۔انہوں نے آخری لائن میں لکھا  آپکی اداکاری ناقابل فراموش ہے۔ ہم اسے سهیج کر رکھے گے۔

عرفان خان کا موازنہ ماضی کے ستاروں سے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔,۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔,
 عرفان خان کا موازنہ موتی لال ، بلراج ساہنی اور سنجیو کمار جیسے اداکار وں سے کیا جاتاہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ عرفان خان کس طرح کے اداکار تھے۔وقت نے انہیں مہلت نہیں دی اور فلم انڈسٹری انکی جوانی سے فائدہ نہیں اٹھا پائی۔20 سال تک وہ فلم انڈسٹری میں اسٹرگل کرتے رہے۔ اس کے بعد انہیں کامیابی حاصل ہوئی۔
53سال کی مدت میں 30 ہندی۔ انگلش فلموں میں انہوں نے اپنی اداکار ی کے جوہر دکھائے۔جس کی مثال نہیں ملتی۔

فلمی ایوارڈ  اور پدم شری سے نواز ے گئے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔,۔۔۔۔۔۔۔
فلم "حاصل" 2004 میں  بحیثیت ویلن فلم فیئر  ایوارڈ سے نو از ہ گیا۔ 2011 میں پدم شری ایوارڈ، 2012 میں 60 وان  نیشنل فلم ایوارڈ اور 2017 میں ہندی میڈیم فلم کے لیے بیسٹ ایکٹر کا ایوارڈ سے عرفان خان کو سرفراز کیا گیا۔ انہوں نے اپنی ہر فلم میں ایک انوکھی چھاپ چھوڑی ہے۔ در اصل عرفان نے پردہ سیمیں پر اپنے کردار کو جیا ہے۔  
بہت کم ایسے فنکار دنیا میں  پیدا ہوتے ہیں۔ جن کے جانے کے  بعد لوگ ماتم مناتے ہیں۔ عرفان خان ان اداکاروں میں سے ایک رہے ہے۔ایسے اداکار برسوں میں پیدا ہوتے ہیں ۔عرفان خان اداکاری کے دنیا کا ایک نایاب گوہر کہیے جا سکتے ہیں ۔جو اب نہیں رہا۔ آج اس کی کمی  فلم انڈسٹری کو محسوس ہو رہی ہے۔ لیکن اس نے اداکاری کے ذ رہے نوجوانوں کے لئے ۔اورسماج کے لیے ایک پیغام دیا۔ جو سسٹم کے خلاف آواز اٹھاتاہے ۔انکی زیادہ تر فلمیں سپر ھٹ رہی۔