Random Posts

Header Ads

Moulana Abul Kalam Azad as a freedom fighter and their works

Moulana Abul Kalam Azad as a freedom fighter and their works

Moulana Abul Kalam Azad as a freedom fighter and their works

مولانا آزاد تحریک آزادی کا ایک درخشا ں ستارہ ۔

محمد شمیم حسین   کلکتہ

مولانا ابوالکلام آزاد کے خدمات  اور قربانی کے بغیر ملک کے آزادی کی باتیں ادھوری رہ جاتی ہے۔ 1905 میں جب انگریزوں نے بڑی عیاری اور مکاری سے بنگال کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کے لئے ہندو مسلم منافرت بیچ بونے کی کوشش کی تو مولانا آزاد سب سے پہلے اس کی مخالفت کی۔ وہ تقسیم کے حق میں نہیں تھے۔ آزاد نے ملک کے آزادی میں گاندھی جی،پنڈت جواہر لعل نہرو اور سردار پٹیل کے ساتھ رہیں ۔مولانا آزاد  آخری وقت تک دو قومی نظریے کے خلاف رہے ۔اور ملک کو تقسیم ہونے سے روکنے کی بھرپور کوشش کی۔ اور آخری وقت تک  مخالفت کرتے رہے۔  آخر میں انہوں نے دہلی کے جامع مسجد سے قوم کے لئے خطاب کی۔  مولانا آزاد نے عدم تعاون کی تحریک ، خلافت موومنٹ، انگریزوں ہندوستان چھوڑو ،سور اج اور سودیسي ، تحریک  میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ ملک کے انقلابی جدوجہد میں مولانا  آزاد دیگر کانگریس  رہنماؤں کے ساتھ پیش پیش رہے  ۔ اس لیے انہیں کئی بار جیل بھی جانا پڑا۔

مولانا آزاد کی یوم پیدائش اور صحافتی خدمات ایک نظر میں


مولانا آزاد کی پیدائش 11 نومبر  1888 کو مکہ معظمہ میں ہوا۔ لیکن ان کی پرورش بنگال کی راجدھانی کلکتہ میں ہوئی۔  1899 میں مولانا آزاد کے والد مکہ سے ہندوستان آگئے۔ انکا اصلی نام محمد محی الدین تھا۔  اسی سال ان کی والدہ ماجدہ کا انتقال ہوگیا۔  ان کی ماہانہ میگزین نیرنگ خیال کا آ جرا عمل میں آیا۔ بارہ سال کی عمر میں ان کی نکاح زلیخا سے کر دی گئی۔  13 جولائی 1912میں الہلال کا ا جرا ہوا اور جرمانہ ادا نہ کرنے پر 18 نومبر 1912 کو الہلال کو بند کر دینا پڑا ۔کیونکہ کہ دس ہزار روپے مولانا کے پاس نہیں تھے۔   اس کے بعد 15 نومبر 1915 کو البلا غ کا رسم اجراء کلکتہ سے ہوا۔ اخر کار آزاد کی بے باک انداز  انگریزوں کو پسند نہ آئی اور انہوں نے بنگال کے حدود سے سے اخبار کو نکالنے کے لیے ہدایات جاری کر دی۔انہوں نے اپنے میشن کو جا ری رکھا اور
 نا م بدل کر اخبار نکا لتے رہیں۔

قید و بند کی تاریخ میں آزاد اور سیاسی عہدہ

   1916 میں مولانا آزاد کو
 را نچی میں گرفتار کر لیا گیا۔ 1920 میں نظر بندی سے آزادی ملی۔10 دسمبر 1921کو ایک سال کے لئے قید با مشقت کی سزا سنائی گئی۔   1930 میں کانگرس کے قائم مقام صدر مقرر ہوئے ۔یے 1946 تک آپ اس عہدے پر رہے ۔ 1930 میں مولانا کو گرفتار کر لیا گیا۔ 4/ دسمبر 1941 میں میں آزاد کو جیل سے رہائی ملی۔ 1942 میں ممبئی میں گرفتاری اسکے بعد 9 اپریل 1943  کو کلکتہ میں گرفتار ہوئے۔ 1945 کو جیل سے آپ کو رہائی ملی۔ 1946 میں غبار خاطر کا ا جر ہوا۔ اس طرح 68 سال 7 ماہ میں نو سال آٹھ ماہ مولانا آزاد کو قید و بند کی کی صعوبتیں جھیلنے پڑی ۔
15 اگست کو آزاد ہندوستان کے پہلے وزیر تعلیم بنائے گئے۔ آپ نے تعلیم میں کئی اہم  کام انجام د دیئے۔ جن میں سب سے بڑا کام  تھا ۔یو جی سی گرانٹ، تعلیم نسواں، پروفیشنل تعلیم،  اور تعلیم صنعت و حرفت کے علاوہ ٹیکنیکل ایجوکیشن کا شعبہ بھی آپ نے بنائے۔  جس کی ایک مثال آئی آئی ٹی کھڑکپور ہے ۔ 1951 میں کانگریس پارٹی کے ڈپٹی لیڈر منتخب کیے گئے۔  1952 میں رام پور سے پہلے انتخاب کے بعد  تعلیم, قدرتی ذرائع اور سائنسی تحقیقات کے وزیر بنائے گئے۔ 1957 میں گڑ گاؤں سے دوبارہ کانگریس کے ڈپٹی لیڈر چنیے گئے ۔1957 میں دوبارہ وزیر تعلیم ، وزیراعظم جواہر لعل نہرو کے کابینہ کی وزیر تعلیم کا قلمدان ایک با ر پھر سے آپکو دیا گیا۔ آپ گیارہ سال وزیرِ تعلیم کے عہدہ پر فائز ر ہیں۔اور دل جمعی کے ساتھ تعلیمی پالیسی پر کام کرتے رہیں۔

مولانا آزاد کے خدمات

مولانا آزاد نے محض 12 سال کی عمر میں نیرنگ خیال میں گلدستہ میں نظم لکھنا شروع کیے تھے۔ مولانا آزاد نے اپنے اخبار الہلال اور ا لبلاغ کے ذریعے  ہندوستان کی آزادی کے لئے جو مضامین  لکھے ۔اس سے انگریزوں کی ہوش ٹھکانے لگے۔ انگریز حکومت نے انہیں متعدد  بار جیل کے اندر کر دیا۔ وہ  اپنی زندگی کے ہر ساتواں روز جیل میں گزاریں۔  1914 میں پولیس ایکٹ کے تحت  انگریزوں نے مولانا آزاد کے اخبار الہلال پر پابندی عائد کر دی ۔تو انہوں نے جرمانہ ادا کرنے کے بجائے ایک نیا اخبار کے شر و ع کیا ۔ اور انگریزوں کے خلاف ہندو  ستانی قوم کے حمایت میں لکھنے لگے ۔الہلال اور البلا غ یہ دونوں اخبار کلکتہ سے شائع ہوتے  تھے  ۔ گاندھی جی اور  مولاناآزاد ایک دوسرے کے لئے لازم وملزم ہوگئے تھے۔  یہی وجہ تھی کہ گاندھی جی نے کبھی بھی مولانا آزاد  کو چھوڑ کر آزادی کی کسی بھی تحریک کو الگ سے دیکھا ہو ۔ آپ کی قلم  نے آزادی کی لڑائی میں تلوار کا کام کیا ۔ ملک  سے انگریزوں کو جانے پر مجبور کردیا ۔کیونکہ خلافت موومنٹ اور  عدم تعاون کی تحریک  سے انگریز پریشان  تھے۔ نیتاجی سبھا س چندر بوس اور گاندھی جی کے درمیان جو خلا پیدا ہوا تھا۔ مولانا آزاد نے اس  اختلافات کو دور کرنے میں کامیاب ہوئے تھے۔ بھارت چھوڑو  تحریک نے رہا سہا کسر پوری کر دی ۔ مولانا نے کئی کتابیں لکھی ہیں جن میں india wins the freedom ،ترجما ن لقر ان، اعلان حق شا مل ہیں۔
ہندوستان کی تحریک آزادی میں میں مولانا آزاد کا ایک منفرد مقام ہے ۔ وہ ایک سیاسی اور مذہبی و مفکر کے حیثیت سے پوری دنیا میں جانے جاتے ہیں۔ بین الاقوامی رہنماؤں میں ان کا ایک الگ مقام ہے۔ مولانا کی صحافتی اور سیاسی زندگی کی شروعات کلکتہ سے ہوئی ۔ انہوں نے اپنی تحریر سے عوام کے اندر جذبہ  پیدا کیا جس سے ملک کو آزادی ملنے کی تمام  رکاوٹیں ختم ہوگئے ۔
مولانا آزاد کو 1992 میں بھارت رتن سے سر فراز کیا گیا۔

بنگال کے رہنماؤں سے قلبی لگاؤ 


مولانا آزاد کو بنگال سے خاص طور سے کلکتہ سے گہرا لگاؤ تھا اور اس کی وجہ یہ تھی کہ انہوں نے بنگال کے ادبی اور سیاسی رہنماؤں سے اچھے تا ل میل کر لیے تھے۔ ان کی زبان اگرچہ عربی تھی اور وہ اردو فارسی کے بھی ماہر تھے کلکتہ میں رہنے کی وجہ سے وہ بنگلہ ز با ن پر بھی دسترس رکھتے تھے۔ و ہ بنگلہ زبان میں اپنے ساتھیوں سے باتیں بھی کرتے تھے۔ محض بارہ سال کی عمر میں کئی اخبارات اور رسائل سے جڑ کر ایڈیٹر کافر ض انجام دیتے رہے۔ وہ 13 سال کی عمر میں میں اپنا اخبار نکال چکے تھے اور اس کے لیے موصوف کو  کئی بار  جیل بھی جانا پڑا۔کئی بار جرمانہ بھی ادا کیا ۔ مولانا آزاد بنگا ل کے نامور ادیب رابندر ناتھ ٹیگور، شام سندر چکرورتی ، سریندر ناتھ بنرجی،اربندو گھوش، بپن چندر پال اور دیگر سیاسی اور سماجی و ادبی انقلابی رہنماؤں کے ساتھ مل کر ملک کی آزادی کے لئے سوچا اور اس پر عمل بھی کیا۔  در اصل مولانا آزاد  انقلابی مزاج کے مالک تھے اور ان کی جان پہچان ان بنگالی رہنماؤں  جیسے لوگوں سے بھی ہوئے جو اپنے فیلڈ میں دلجمعی کے ساتھ کام کرتے تھے ۔ اسمیں ڈاکٹر نیل رتن سرکار اور رابندر ناتھ ٹیگور بھی شامل تھے۔  وہ ان کے بھائیوں کے ساتھ بھی اکثر بات چیت کرتے تھے۔مولانا کی شخصیت کا کیا کہنا ان کا دشمن بھی اس بات کی انہیں داد دیتا تھا کہ مولانا کبھی بھی اپنے مخالف کو  برا بھلا القاب  سے کبھی نہیں نوازتے۔ مولانا کے اندر کوٹ کوٹ کر وسعت ظرف بھری ہوئی تھی۔ انہوں نے کبھی کسی کی برائی نہیں کی اور نہ ہی کسی کے سامنے اپنے حریف  کی غیبت کرتے تھے ۔و ہ بہت نرم گو اور صاف دل انسان تھے۔ جس طرح وہ کسی بھی قیمت پر بنگال کا بٹوار ہ نہیں چاہتے تھے اور نہ ہی مذہب کے بنیاد پر دونوں ملکوں کے درمیان تقسیم۔ اسی طرح مسلم لیگ اور  دوقومی نظریے کے سخت مخالف تھے۔ مولانا ملک کی آزادی میں نہ جانے کتنی بار جیل گئے ۔ ملک آزاد ہوا اور وہ وزیر تعلیم بنے لیکن آج نہ تو ا سکولوں میں کالج میں یونیورسٹی میں اور نہ ہی سرکاری آفس میں مولانا آزاد کی تصویر کہیں نظر آتی ہے۔   سرکاری آفس میں بھی ان کے لئے کوئی جگہ نہیں ۔ نمایاں طور پر آج ہر سرکاری دفتر میں آپ کو کو وزیر اعلی اور آج کے وزیراعظم کی تصویر نظر آئے گی۔  لیکن جنہوں نے  ملک کو آزاد کرایا تھا ۔وہی آج تصویر سے غائب ہیں۔یہ ایک عجیب و غریب المیہ ہے۔

مولانا ابوالکلام آزاد اور انکی صحافت


گیارہ سال کی عمر میں صحافت سے جڑنا مذاق نہیں لیکن مولانا آزاد نے اسے سچ کر دکھایا ۔پہلی کتاب انہوں نے اعلان حق لکھے۔ جب ان کی عمر صرف بارہ سال رہی ہوگی۔ مولانا نے اپنی صحافت کے دم  پر انگریزی ایوان حکومت میں زلزلہ پیدا کر دیا ۔ 1912 سے مولانا کا سیاسی سفر شروع ہوتا ہے جو ان کی موت تک جاری رہتا ہے۔  ان کی نکلی ہوئی آواز مردہ دلوں میں نئی جان ڈال دیتی تھی۔ مظلوموں اور غریبوں کو آزادی کا   شیدائی اور فدائی بنا دیا  اور غلامی کی زنجیر توڑنے کی توفیق عطا کی۔ جد وجہد کی بات ہو یا ملک کی آزادی کی بات ہو  مولانا نے صحافت کے زریعے  لوگوں کے اندر جو ش اور ولولے پیدا کئے۔ اپنے تحریر سے جس سے مجا ہد آزادی  بڑھ چڑھ کر آزادی کے دنوں میں حصہ لیا ۔  مولانا آزاد کے خطبہ اور تحریر  کی بات نہ ہو یہ ممکن نہیں ۔مولانا آزاد نے صحافت کو ایک نیا ایام دیا۔ انہوں نے صحافت کو ہتھیار بنایا اور اس سے تلوار کا کام لیا۔ آخرکار انگریزوں کو بھارت چھوڑنے پر مجبور ہونا پڑا۔ کیونکہ ان کے شعلہ بیان تقریر اور تحریر ،پورے ہندوستان میں مجاہد آزادی کے دلوں میں چنگاری پیدا کر چکے تھے۔ مولانا آزاد ایک ہمہ گیر شخصیت کے مالک تھے۔ مظلوم و بے کس کی صدا کو اپنی صحافت  کے ذریعہ بین الاقوامی سیاسی شعور دے کر مولانا آزاد نے معاشرے میں میں ایک انقلاب پیدا کر دیا۔  ان کے علمی، ادبی ،دینی اور سیاسی بصیرت کا جواب نہیں۔  مولانا آزاد  ہندو مسلم کے داعی تھے۔  وہ 20 سال کی عمر میں سیاست میں ائے،  68سال سات ماہ زندہ رہے ۔9سال 8 ماہ جیل میں گزارے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے انگریزوں کے خلاف کس قدر مورچہ سنبھال رکھا تھا۔

مولانا کا تاریخی خطبہ سے چند جملے 


مولانا ابوالکلام آزاد  دہلی کی تاریخی جامع  مسجد کے فصیل سے قوم اور مسلمانوں کو خطاب کیا تھا ۔ملک کے آزادی سے چند روز قبل جب کچھ لوگ ہندوستان چھوڑ کر پاکستان کا رخ کر رہے تھے۔ اس وقت اس تاریخی خطبہ میں مولانا نے ان لوگوں سے کہا تھا ۔ یہ فرار کی زندگی جو تم نے ہجرت کے مقدس نام پر اختیار کی ہے۔  اس پر غور کرو ۔اپنے دلوں کو مضبوط بناؤ اور اپنے دماغوں کو سوچنے کی عادت ڈالو اور پھر دیکھو تمہارے یہ فیصلے کتنے   عاجلانہ ہے، آخر کہاں جا رہے ہو اور کیوں جا رہے ہو ،یہ دیکھو مسجد کے بلند مینار تم سے سے اچک کر سوال کرتے ہیں کہ تم  نے اپنی تاریخ کےصفحات کو کہاں گم کردیاہے۔ ہے ابھی کل کی بات ہے کہ جمنا کےکنار ے تمہارے قافلوں نے وضو کیا تھا۔ تھا اور آج تم ہو کہ تمہیں یہاں رہتے ہوئے خوف محسوس ہوتا ہے۔حلا نکہ دہلی تمہارے خون سے سینچی ہوئی ہے۔ تمہیں یاد ہے میں نے تمہیں پکارا تم نے میری زبان کاٹ لی، میں نے قلم اٹھایا اور تم نے میرے ہاتھ قلم کر دیئے۔  میں نے چلنا چاہا  تم نے میرے پاؤں کاٹ دیے۔ میں نے کروٹ لینی چاہی تم نے میری کمر توڑ دی ۔
زاہد تنگ نظر نے مجھے کافر جانا اور کافر یہ سمجھتا ہے مسلمان ہوں میں  ( مولانا آزاد)

مولانا آزاد 22 فروری 1958کو اس دنیا کو الوداع کہہ گئے۔انکی  تدفین دہلی میں ہوئی۔