Random Posts

Header Ads

Bihar mai kiski bahar? kiski jeet ke ashar

 

Bihar mai kiski bahar kiski jeet ke ashar

Bihar mai kiski bahar? kiski jeet ke ashar

بہار  میں کس کی بہار۔۔؟ 
کس کی جیت کے آثار۔۔۔؟  

۔۔۔۔۔۔۔۔ڈاکٹر نوشاد مومن۔۔۔۔۔۔
 بہار اسمبلی انتخاب 2020 پر اس وقت سب کی نظریں جمی ہوئی ہیں۔ ویسے بھی ملک میں انتخابی عمل در اصل جمہوریت کا ایک ایسا رقص ہے جسے ہر عام و خاص بڑی دلچسپی سے دیکھنا پسند کرتا ہے۔جمہوریت کے اس رقص میں سیاسی پارٹیاں ایک دوسرے پر سبقت حاصل کرنے کے لیے اپنا سب کچھ داؤ پر لگا دیتی ہیں۔
ایسے ماحول میں سیاسی جماعتوں اور سیاسی پنڈتوں کے ساتھ ساتھ عوام الناس پر بھی پیش گوئی کا بھوت سوار ہو جاتا ہے کہ کون کتنی سیٹیں جیت کر حکومت سازی میں کامیاب ہو گا۔ ہر تجزیہ نگار کے پاس  پیش گوئی یا قیاس آرائی کی اپنے طور طریقے ہیں۔ کچھ سابقہ اعداد و شمار کا عصری تناظر میں تجزیہ کرتے ہیں تو کچھ  لیڈران کے عوامی رابطے اور اُنکے ساتھ چلتی بھیڑ سے اندازہ لگانے کی سعی کرتے ہیں۔ تجربہ کار صحافی اور سیاسی ماہرین کثیر تعداد میں رائے دہندگان سے باتیں کر کے عوامی رجحان کا تعین کرتے ہیں۔ حالانکہ سیاسی رہنماؤں کے انتخابی مہم اور اُن کی ریلیوں میں عوامی شرکت سے قیاس لگانا اب ایک عام سی بات بن کر رہ گئی ہے۔ بہار کے حوالے سے سیاسی پنڈتوں کا تجزیہ "یکطرفہ این ڈی اے کی جیت" سے بدل کر "تیجشوی یادو کے حق" میں تبدیل ہو گیا ہے اور اب تین مرحلوں کے انتخاب کے بعد انہی پنڈتوں  نے دبی زبان میں یہ کہنا بھی شروع کر دیا ہے کہ "نتیش کمار کو کم مت سمجھو۔"
اس طرح کے اشارے انتخابی کھیل کو دلچسپ اور پر تجسس بناتے ہیں، لیکن  پچھلی کئی دہائیوں کی تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ ان اشاروں سے محض خیالی نتائج برآمد ہوتے ہیں۔ سیاسی پارٹیوں کے انتخابی اجلاس میں امڈتی بھیڑ کے بارے میں جتنا کم کہا جائے بہتر ہے۔ کیونکہ سیاسی جلسوں میں شرکاء زیادہ تر پارٹی کے وفادار اور حمایتی ہوتے ہیں یا وہ لوگ جو اپنی پسند کے رہنماؤں کی ایک جھلک دیکھنا چاہتے ہیں۔  جیسا کہ 2015  کے بہار انتخاب میں وزیر اعظم مودی کی ریلیوں میں بے تحاشہ بھیڑ دیکھی گئی لیکِن اس بھیڑ نے بی جے پی کے حق میں یک طرفہ ووٹ  نہیں کیا تھا۔
  بہر حال سیاسی پنڈتوں کی قیاس آرائیوں کے عین مطابق بہار  2020 اسمبلی انتخابات میں عوامی رائے شماری کے  نتائج آنے میں اب محض چند دنوں کا انتظار ہے تاہم چند باتیں ایسی ہیں جو ہم یقینی طور پر جانتے ہیں اور چند ایسے امور ہیں جو ہم نہیں جانتے۔
پہلی اور بنیادی بات یہ کہ اس مرتبہ نتیش کمار کے خلاف اینٹی انکومبینسی بہت زیادہ ہے۔ دوسری بہار کے نوجوان طبقے میں بے روزگاری سب سے بڑا سیاسی ایجنڈہ بن کر سامنے آیا ہے۔ تیسری یہ کہ  جیسے جیسے بہار کے انتخابی مہم میں تیزی آئی ہے ویسے ویسےتیجشی یادو کی مقبولیت میں زبردست اضافہ ہوتا گیا ہے۔ چوتھی بات یہ کہ زمینی سطح پر بی جے پی اور آر جے ڈی بہار کی مضبوط پارٹیاں ہیں- ووٹوں کی شرح کے اعتبار سے بھی اور تنظیمی طاقت کے لحاظ سے بھی ۔
پانچویں بات یہ ہے کہ چراغ پاسوان کی پارٹی ایل جے پی عظیم اتحاد کے مقابلے میں این ڈی اے کو بہت زیادہ نقصان پہنچائے گی بالخصوص ان نشستوں پر جہاں ایل جے پی   نے جے ڈی (یو) کے خلاف اعلی ذات کے ہندوؤں کو اپنا انتخابی امیدوار بنایا ہے۔ چھٹی اہم بات یہ ہے کہ دیگر چھوٹی جماعتیں این ڈی اے اور عظیم اتحاد دونوں کو مختلف سیٹوں پر مختلف حوالے سے نقصان پہنچا سکتی ہیں۔
 ان حقائق کے باوجود بہار میں  بی جے پی کا قلعہ قدرے مضبوط نظر آرہا ہے اور عین مُمکِن ہے کہ بی جے پی نہ صرف اپنی پکڑ بناۓ رکھنے میں کامیاب رہے گی بلکہ وہ جے ڈی (یو) اور دیگر اتحادیوں  کے ووٹوں کو بھی مؤثر طریقے سے اپنے حق میں منتقل کر سکتی ہے۔ حالانکہ بی جے پی اپنی اپنی سیٹوں پر کافی مطمئن ہے، لیکن ایل جے پی نے بھاجپا کے روایتی ووٹوں کا ایک بڑا حصہ اپنے حق میں کر لیا ہے نیز نتیش کی اینٹی انکیمبینسی سے بھی بھاجپا کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اس کے باوجود وہ  اپنے اتحادی جے ڈی (یو) سے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کر سکتی ہے۔
 اس انتخاب کا سب سے دلچسپ پہلو تیجشوی یادو کا نیا جوش و جذبہ لے کر سامنے
 آنا ہے۔ جو مسلمانوں اور یادوؤں کے بھروسے سی ایم کرسی کی  کے لیے ڈارک ہارس ثابت ہو سکتے ہیں۔ویسے بھی بہار میں بے روزگاری اور مہاجر بحران پر بہاریوں کی برہمی نے بی جے پی اور جے ڈی (یو) کو یکساں طور پر بری طرح متاثر کیا ہے جس کے اثرات دونوں پارٹیوں کے ووٹ شیئر پر پڑنا یقینی ہے۔ 
دوسری طرف تیجشوی یادو نے دس لاکھ نوکریوں کا بر وقت اعلان کر کے نوجوان ووٹرز کو نہ صرف  اپنی جانب  متوجہ کیا ہے بلکہ مہاگٹھ بندھن کو ذات پات سے الگ ہٹ کر نتیش مخالف ووٹ حاصل کرنے کا موقع بھی فراہم کردیا ہے۔
یہاں یہ ذکر لازم ہے کہ نتیش کمار کے خلاف آواز اٹھانے والے لوگ بنیادی طور پر آر جے ڈی کے یادو ووٹر اور بی جے پی کے اعلی ذات کے ووٹر ہیں لیکِن نتیش نے انتہائی پسماندہ ذاتوں ، مہادلیتوں اور خواتین میں اپنی حمایت برقرار رکھی ہے۔ ووٹروں کا یہ طبقہ عمومی ووٹر کے مقابلے نسبتا خاموش ہے جو نتیش کمار کے لیے راحت کا سبب بن سکتا ہے۔
سیاسی برتری کی اس جنگ میں ووٹوں کی منتقلی بھی بڑی اہمیت کی حامل ہے۔  امکان ہے کہ بی جے پی اور آر جے ڈی اپنے ووٹ کو مؤثر طریقے سے منتقل کرنے میں کامیاب ہو جائے گی۔البتہ کانگریس اپنے روایتی ووٹوں کو کس حد تک منتقل کر پانے گی یہ کہنا قبل از وقت ہوگا۔ کیوں کہ سی ایس ڈی ایس سروے میں یہ دعوی کیا گیا ہے کہ صرف 47 فیصد " کانگریس کے روایتی ووٹرز" عظیم اتحاد کو ووٹ دینے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
سیاسی تجزیہ نگاروں کی اگر مانیں تو اس انتخاب میں چھوٹی سیاسی جماعتیں بڑی سیاسی پارٹیوں کو زیادہ نقصان پہنچا سکتی ہیں۔اُن کے مطابق اوپیندر کشواہا کی راشٹریہ لوک سمتا پارٹی اگر 18 فیصد کوئیری/کشواہا  ووٹروں کا اعتماد حاصل کرنے میں جتنا کامیاب ہوگی اتنا ہی نقصان جنتا دل (متحدہ) کو ہوگا۔ اس کے برعکس آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے امیدواروں سے عظیم اتحاد کو زیادہ اور قومی جمہوری اتحاد کو کم نقصان ہونا متوقع ہے۔ ٹھیک اسی طرح ایل جے پی کے اعلی ذات کے برہمن امیدوار جے ڈی (یو) کو زیادہ نقصان پہنچا سکتے ہیں لیکن اس کے دلت اور مسلم امیدواروں سے عظیم اتحاد کو نقصان ہوسکتا  ہے۔
بہر حال ووٹروں کے اعداد و شمار اور متعدد پارٹیوں کے چار متحدہ محاذ کی وجہ سے بیشتر سیٹوں پر فتح کا مارجن کم ہی نہیں بلکہ بہت کم ہونے کا قوی امکان ہے۔  البتہ جہاں بھاجپا اور را جد میں براہ راست مقابلہ ہے وہاں دونوں اپنی برتری ثابت کرنے کے لیے پوری قوت جھونک چکے ہیں۔  کیوں کہ دونوں ہی تنظیمی لحاظ سے بڑی مضبوط جماعتیں ہیں اور انتخابی شکست و فتح سے اُن کی مستقبل کی سیاست کا دارومدار  ہے۔ تاہم اقتدار کی اس جنگ میں کچھ دلچسپ نشستیں ایسی بھی ہیں جن میں جے ڈی (یو) کی لڑائی ایل جے پی اور کانگریس دونوں کے اعلی ذات کے امیدواروں کے خلاف ہے۔
 اس طرح کی نشستوں پر اعلی ذات کے ووٹر کون سی پارٹی کا انتخاب کرتے ہیں وہ قابل دید ہوگا۔
ویسے تیسرے مرحلہ کی ووٹنگ کے بعد جنگ کی آخری  لکیر کھینچ دی گئی ہے۔این ڈی اے کو امید ہے کہ پہلے  اور  دوسرے مرحلے میں ہونے والے کچھ نقصانات کو پورا کرکے وہ آخری مرحلے میں برتری حاصل کرلے گی جس میں مسلم ووٹرز کا زیادہ ارتکاز اس کے لئے  چیلنج ثابت ہوسکتا ہے۔