Random Posts

Header Ads

all india payam e insaniyet message for brotherhood love n affection

ال انڈیا پیامِ انسانیت کا پیغام : اخوت محبت بھائی چارگی اور اپنے اخلاق سے ہر خاص و عام کا دل جیتنا ہے۔ مولانا ابوالحسن ندوی (لکھنؤ)

کولکاتا سے رپورٹ : محمد شمیم حسین ۔ کولکاتا
اللہ نے ہر دور میں  اپنا میسنجر بھیجے ۔ہدایت پر لانے والے صحیح راستہ بتانے والے پیغمبر بھیجے ہیں۔ سلام ہو اس کے پیغمبروں پر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر کہ جن کے ذریعے سے اور ان کے غلاموں کے ذریعے سے ہمیں بہت کچھ ملا، دنیا کو بہت کچھ ملا اور جو کچھ بہار نظر اتی ہے وہ بہار اس کے پیغمبروں کی دی ہوئی بہار ہے۔ مولانا ابوالحسن ندوی نے ال انڈیا پیام انسانیت فورم  کے اس پروگرام میں کولکاتا کے سائنس سٹی آڈیٹوریم میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ
 اج ہم اور اپ جمع ہیں ہندوستان ایک خوبصورت سا گلدستہ ہے جہاں مختلف پھول ہیں۔ جس کی خوشبوئیں اپ نے محسوس کی اور ہمارے مولانا فرماتے تھے حضرت  میاں صاحب کہ ہندوستان ایک گلدستہ ہے۔اس میں رنگ برنگ کے پھول ہیں اگر ان پھولوں کو نکالا گیا یا مسئلہ گیا تو گلدستے کا حسن ختم ہو جائے گا ۔ پھولوں کا یہ گلدستہ اس کو ہمیں کسی قیمت پر واقع رکھنا ہے تاکہ اس کی خوبصورتی دنیا کو بلند دکھاتی رہے اور اس کی خوشبو پوری عالم کو مہکاتی رہے تو میں اپ سب کو بہت مبارکباد دیتا ہوں بدھائی دیتا ہوں کہ اپ یہاں پر جمع ہیں ۔ایک بہت اہم کام کو لے کر جمع ہے جیسے بعد میں بھی کہی گئی کہ مسئلہ صرف یہ نہیں ہے کہ اپ ائے اور ہم یہاں بیٹھے اور اپنی بات سنا کر چلے گئے یہاں تو ہمیں عہد کرنا ہے۔ بات تو ہمیں اگے پہنچانا ہے جو حالات ہیں اس ملک کے اور جس طرح بھید بھاؤ  پیدا کیا جا رہا ہے ۔نفرت پیدا کی جا رہی ہیں انسان کو انسانوں سے کاٹا جا رہا ہے ۔ یہ ایسی چیز ہے جو اس ملک کے لیے بھی خطرناک ہے۔  رہنے والے یہاں کے جو بھی ہوں سچی بات یہ ہے کہ وہ اسی ملک کی انرجی ہیں ۔  اگر رہنے والوں کو کمزور کیا جاتا ہے تو اس ملک کو کمزور کیا جا رہا ہے لیکن اگر یہ چیزیں ختم ہو گئی تو  اپنے گھر میں سکون سے نہیں رہ سکتے ۔اگر بچی تعلیم کے لیے گئی ہے تو اس کا بچہ کسی سکول میں گیا ہے اس کو سکون نہیں ہے کہ وہ شام کو خیریت سے ائے گا یا نہیں۔ ائے گا اس کے ساتھ کوئی دور گھٹنا تو نہیں ہوگی لیکن یہ تب ہوگا کہ جب ہم سب مل کر کوشش کریں کہ ہر حال میں ہمیں اس ملک کی شانتی کو قائم رکھنا ہے۔ یہاں اس محبت کی فضا کو قائم رکھنا ہے جو صوفی سنتوں کا ملک ہے ۔
 یہاں کی مٹی میں محبت شامل ہے۔ پریم یہاں کی سنسکرتی میں شامل ہے۔  اگر ہم نے اس کو نہ سمجھا تو شاید وہ وقت ا جائے اور مولانا نے کہا کہ میں دعا کرتا ہوں اس مالک سے کہ وہ وقت نہ ائے کہ ہم کرنے کے باوجود، چاہنے کے باوجود کسی نتیجے پر نہ پہنچ سکے۔ انہوں نے کہا کہ
 اج ہمارے پاس وقت ہے اج ہمیں اس مالک نے موقع دیا ہے۔ ہمیں میدان میں انے کی ضرورت ہے اور دیکھیں یاد رکھیے اچھی باتوں کو دبا کے رکھا جائے گا۔  اپ اچھی باتوں کو اچھا سمجھتے ہیں لیکن اپ نکلنے کے لیے تیار نہیں بری باتوں کو عام کرنے والے پھیلتے رہیں دندناتے رہیں تو اس کا کیا نتیجہ نکلے گا۔ مولانا نے ایک صحابہ کا مثال دیتے ہوئے کہا کہ
 حضرت معاذ یہ کہتے تھے کہ ابھی اس کا وقت نہیں ہے کہ جو ریسرچ کرنے والے ہیں جو خالص صوفی سنت قسم کے لوگ ہیں اور عبادت خانوں میں بیٹھے ہیں وہ اپنے کاموں میں لگے رہیں۔ اب اس کا وقت نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگ جب لگتی ہے تو پھر یہ نہیں دیکھا جاتا کہ کوئی کسی اہم کام میں لگا ہے ہر ادمی پہلے اگ بجھانے کی کوشش کرتا ہے۔ اس کے بعد اپنا کام شروع کرتا ہے۔ اس لیے کہ اگر اگ نہ بجھی تو کسی کی خیر نہیں ہے۔ اج ایک گھر میں اگ لگی ہے کل دوسرے گھر میں اگ لگے گی۔ اج اس کی باری ہے کہ کل ہماری باری ہے۔ کوئی نہیں جانتا کہ انے والا کل کیا لائے گا۔ قبل اس کے کہ حالات اور بگڑ جائیں اور ہمارے ہاتھ سے نکل جائے معاملہ ہمیں اگے بڑھانا ہے۔ ہمیں حالات کو بہتر بنانا ہے۔ ہمیں لوگوں کو سنبھالنا ہے ،گرتے ہوئے کو سنبھالنا ہے اور ایک بات میں اپ سے کہتا ہوں میں نے پورے ملک کے دورے کی ہے ہر طرح کے لوگوں سے میں ملا میں نے جو چیز محسوس کی وہ یہ ہے کہ ابھی بھی اس ملک میں محبت زندہ ہے۔ انسانیت زندہ ہے ۔
حضرت مولانا علی میا ں کہتے تھے کہ انسانیت مری نہیں ہے انسانیت سو رہی ہے ۔ اس کو جگانے کی ضرورت ہے ہاں کچھ لوگ ہیں جو سو رہے ہیں۔ اپ انہیں شاید نہیں جگا پائیں گے ان کو لیکن ایسے تو بہت کم لوگ ہوتے ہیں۔انہوں نے کہا 
 اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جو سو رہے ہیں اپ ذرا بھی جگائیں گے تو وہ ہوشیار ہو جائیں گے ۔ وہ اپنی سلامتی کی فکر کریں گے تو اپ کے استاد میدان عمل میں ائیں گے اور میرے ساتھ یہ واقعات پیش ائے۔  میں مختلف علاقوں میں گیا، میں جیلوں میں بھی گیا ، ا سکولوں میں بھی گیا میں ،ہاسپٹل میں بھی گیا ایک جگہ مجھ سے بڑے جیل کے جو ذمہ دار تھے وہ کہنے لگے کہ مولانا اپ نے جو باتیں کہی ہیں اج اس  کی ضرورت ہے وہاں بہت بڑا جیل تھا کہ ڈھائی تین ہزار کے قریب قیدی تھے میں ان کے سامنے بھی بات کی اور ان سے بھی میں نے گفتگو کی اور میڈیا کے لوگ بھی تھے۔
 وہ کہنے لگے  اپ کی یہ سوچ ایسی ہے کہ ہمارے دلوں میں ہے۔ اج یہ سو رہیں ہیں۔  اکثریت میں کوئی میدان میں انے کو تیار نہیں کوئی صدا لگانے کو تیار نہیں۔
 اپ ائیے میدان میں ہم اپ کے ساتھ تیار ہیں۔  ہم  آپ سےہاتھ ملانے کے لیے تیار ہیں اور ہم  ہر چیز سمجھتے ہیں۔ اکثریت اپ کی ذات پر ائے گی۔ ہر شخص کے اندر جو دل ہے وہ انسان کا دل ہے وہ بھیڑیے کا دل نہیں ہے لیکن ذرا سا دستک دینے کی ضرورت ہے۔ دماغوں تک پہنچنے کی ضرورت ہے کہ انسانیت کا مزہ کیا ہے اس کی مٹھاس کیا ہے کہ کوئی کیا جانے جن لوگوں نے انسانیت کی خدمت کی جنہوں نے بھوکے رہ کر کھانا کھلایا جنہوں نے دوسروں کے لیے سب کچھ طے کیا اپ اس سے جا کر پوچھیے کہ انسانیت کی مٹھاس کیا ہے ۔محبت کا مزہ کیا ہے ۔ یہ انسانیت کا پیغام ہے اور  تحریک پیغام انسانیت کو 50 سال ہو چکے ہیں بلکہ میں تو یہ کہتا ہوں کہ اس کو تو اس ملک کی ازادی کے ساتھ شروع کیا گیا ہمارے مولانا علی میا ں نے محسوس کیا ایک بڑا انگریز واضح لکھتا ہے ہم اس ملک میں تھے ہم نے یہاں حکومت کی اور اپ سب جانتے ہیں کہ تقسیم کر کے حکومت کرو کی جو پالیسی تھی divide & rule انہوں نے اس پر عمل کر کے حکومت کی لیکن جاتے جاتے وہ کیا لکھتا ہے کہ ہم اس ملک سے جا رہے ہیں لیکن ہم نے ایسی تاریخ مرتب کر دی ہے ۔ ہمیں ایسی ہسٹری بھی لکھتی ہے کہ اب یہاں کے رہنے والوں کے دل مل نہیں سکتے۔ ہم اج انہیں انگریزوں کی غلامی پر گویا کہ ناز کرتے ہیں۔ اج  ہمارے جسم ازاد ہو گئے لیکن مولانا کہتے تھے شاید اج ہمارے ضمیر غلام بن گیا ہے۔
 اج میں انگریزوں کی کتابوں کو سینے سے لگائیں ان کے ا سپیکر کو ہم عام کریں۔ ہماری نصابی کتابیں اور ہمارے لکھنے والے ان کتابوں کے سامنے رکھ کر کتابیں لکھیں اور مضامین تیار کریں اور یہ بھول جائیں ایسا کیوں کیا گیا۔ ہم  سمجھ رہے ہیں کہ ہمیں  غور کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں اپنے اپ کو ازاد کرنا چاہیے۔ اس ملک میں کسا ن اور انسانوں کو جوڑ کر اگے ہمیں لے جا کر ان کو ایک نیا ایک نئی تعمیر کے ساتھ ان کو اگے بڑھانے کی ضرورت تھی۔
 اج اس میں بڑی کمی ہے کہ تحریک بیان انسانی اسی لیے ہے کہ ہمارے اندر محبت پیدا کرے ہمارے اندر ہمدردی پیدا کریں ہمارے اندر انسانیت پیدا کرے انسانیت کی اصل کیا ہے کہ اس کے اندر انسان کے اصل کیا ہے تو اس کے اندر انسانیت ہو اپ سب جانتے ہیں نمکین۔نمکین  ہی ہوتی ہے شکر میں مٹھاس ہوتی ہے۔ ابھی بات کہی گئی اگر شکر میں مٹھاس نہ رہے نمک میں نمکین ہی نہ رہے تو نمک کس کام کا کوئی شکل شریک ٹھہر کی جائے اگر اسی طرح انسانوں میں انسانیت باقی نہ رہے تو انسان کی کیا قیمت ہے ۔وہ جانور ہے وہ دانوں ہے اور ما نو تا وہ نہیں ہے ۔ میرے دوستو اور بھائیو مانوتا کا یہ سبق اسی لیے ہے کہ مانو تا اس کو سمجھے انسان اس کو سمجھے ایسی زندگی اختیار کرے جس زندگی سے لوگوں کو فائدہ ہو کہیں انسان و جانور کا فرق ہے۔ کوئی جانور کھاتا ہے دوستوں کو دھکا دے کر کھاتا ہے دوسرے کو سینگ مار کر الگ کر دیتا ہے لیکن ایک انسان ہے وہ بھوکے کو دیکھتا ہے تو اپنا ادھا پیٹ کاٹ کر وہ اس کو کھانا کھلاتا ہے۔ اس انسانیت کو اگے بڑھانے کی ضرورت ہے مولانا ابوالحسن ندوی  نے کہا کہ میں اپ سے صاف کہتا ہوں ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں تعلیم دی ہے اور کوئی فرق نہیں رکھا اپ نے یہ کہا کہ اگر کوئی بھوکے کو کھانا کھلاتا ہے اگر کوئی ننگے کو کپڑا پہناتا ہے اگر کسی درد مند کی ضرورت  کو کوئی پورا کرتا ہے  کوئی ہو یہ مسلمان ہو کہ مسلمان نہ ہو کسی مذہب کا ماننے والا ہو لیکن اگر وہ انسان ہے وہ انسانوں کے کام اتا ہے تو وہ اپنے رب کو پاتا ہے۔ گویا کہ اس سے وہ اپنے رب تک پہنچ سکتا ہے اپنے رب کی باتوں کو سمجھ سکتا ہے تو میرے دوستوں اور بھائیو یہ پیغام ہے کہ ہم اس کے لیے کوشش کریں ہم لوگوں کو جوڑنے کی کوشش کریں انسانوں کو انسانوں سے جوڑنے کی کوشش کریں انسانیت کا جو اصل پیغام ہے  ۔ یہ ایک مشن ہے ایک لفظ ہے۔ ایک جملے میں اگر اپ اس کو ادا کریں تو یہ ہے کہ ہمیں انسانوں کو انسانوں سے جوڑنے کا کام کرنا ہے۔ مذہب اپنی جگہ پر ہے۔ اپنے مذہب پر عمل کیجئے لیکن کون سا مذہب یہ کہتا ہے کہ اپ گلے کاٹیے۔ اپ دوسروں کو برا بھلا کہیے ۔ ہر مذہب اچھائی کی تلقین کرتا ہے اور ہمیں یہ بات سکھائی جاتی ہے کہ ہم ایک دوسرے کے کام ائیں۔ یہ اصل بات ہے بنیادی اگر انسانوں میں یہ بات انسانیت کی پیدا ہو تو اسے زندگی کا مزہ ہے ورنہ زندگی کے کیا مزہ ہے اپ اور ہم یہاں اسی لیے جمع ہوئے کہ اج یہ پیغام لے کر جائیں اور یہ طے کر کے جائیں کہ ہمیں انسانیت کا چراغ روشن کرنا ہے ہمیں گھر گھر یہ پیغام پہنچانا ہے اپنے گھروں میں یہ سبق دہرانا ہے اور اپنے ان تمام لوگوں سے یہ بات پہنچانی ہے جو شاید یہ سبق بھول گئے شاید ان کے ذہنوں کو مس کیا ہو۔ شاید ان کو غلط باتیں ان تک پہنچائی گئی ان کو غلط کہیں۔ ہم اگر کوشش کریں گے تو یہ غلط فہمیاں دور ہو سکتی ہیں ۔ مجھے یہ تجربہ ہے مختلف علاقوں میں میں نے دیکھا ایسے لوگ جن کے ذہنوں کو زہر سے بھر دیا گیا ۔ ان کے کاندھے پر ہاتھ رکھ کر دیکھیے۔ وہ اپ کا ہاتھ کا رکھنا ان کے دل تک جائے گا اور ان کے اندر تو انسان کا دل دھڑک رہا ہے ۔ اس کے اندر ایک کیفیت پیدا ہوگی اور ایک تبدیلی اپ کو نظر ائے گی اور اس کے اپ نتائج دیکھیں گے اپ کوشش کیجیے اپ میدان میں ائیے اپ بالکل فرق یہ بغیر اگے بڑھ کر ایسے لوگوں تک پہنچ جائیے جو غلط فہمیوں کے شکار ہیں۔ شاید وہ حال کو نہیں سمجھتے ہم اس ملک کے رہنے والے ہیں۔ یہاں ہمیں جو سکھایا گیا اور یہاں کا جو قانون ہے ہمیں جو سہولتیں دیتا ہے ہمیں جو ازادی دیتا ہے اور اس ملک کی خصوصیت ہے ہمیشہ سے یہاں مختلف مذاہب کے لوگ رہے ہیں حکومت جس نے بھی کی ہو لیکن پوری ازادی کے ساتھ رہیں اور اج بھی اس بات کی ضرورت ہے کہ یہاں سب مل جل کر رہیں ۔محبت کے ساتھ رہیں۔ اس ملک کو اگے بڑھائیں۔ اگر اس طرح ہم ایک ہو کر اگے بڑھیں گے تو کیا بعید ہے  کہ کیا مشکل ہے کہ یہ ملک ایک زمانے میں ایسا سپر پاور بن جائے اور سب سے بڑھ کر میں یہ سمجھتا ہوں کہ اخلاق کا سپر پاور بن جائیں کہ اس سے دنیا کو میسج ملے اور یہ ملک ایسا رہا ہے ایسے بڑے بڑے لوگ یہاں پیدا ہوئے تو ان کی اواز ساری دنیا میں سنی گئی ۔
انہوں نے جو محبت کا پیغام دیا اور انسانیت کا پیغام دیا وہ ساری دنیا میں سنا گیا۔ ابھی اپ کے سامنے مثال دی گئی حضرت خواجہ معین الدین چشتی ایک  بات کہتے تھے کہ جو تمہارے راستے میں کانٹے ڈالتا ہے تم اس کے راستے میں پھول ڈالو۔  اگر تم بھی کانٹے ڈالو گے تو کانٹے ہی کانٹے ہو جائیں گے ۔ مگر تم پھول ڈالو گے تو کچھ تو خوشبو مہکے گی اور اج نہیں تو کل کانٹے ڈالنے والا سوچے گا کہ ہم نے جس کے راستے میں کانٹے ڈالی وہ ہمارے راستے میں پھول ڈالتا ہے تو کیوں نہ ہم بھی راستے میں پھول ڈالیں تاکہ خوشبو ہی خوشبو نظر ائے اور اس طرح کانٹے ختم ہو جائے۔یہ فکر ہمارے اندر پیدا ہو۔ یہ پوری دنیا میں پھیلائیں ہر ملک میں عام کریں ہم لوگوں تک پہنچیں اور یہ حقائق کو رکھیں تو میں سمجھتا ہوں کہ یہ تحریک اور یہ صدا کہ جو مولانا نے لگائی اور اس وقت یہ بات مولانا نے کہی تھی کہ لگتا ہے کہ یہ بسانا ثابت ہو لیکن دلوں تک بی پہنچے گا تو یقینا اس کے اثرات محسوس کیے جائیں گے اور لوگ میدان میں ائیں گے اور حالات بدلیں گے اور یہ چیز اج میں اپنی انکھوں سے دیکھ رہا ہوں الحمدللہ جو کام مختلف شہروں میں ہوا اور برائیوں سے دور کرنے کے لیے کرپشن کو ختم کرنے کے لیے ملک کو اگے لے جانے کے لیے تو جوڑ کی بات کی گئی۔ انسانوں کو انسانوں سے جوڑنے کی بات کی گئی اج اس اواز کو لبیک کہتے ہیں اور جہاں بھی یہ بات کہی گئی لوگوں نے یہ بات کہیں اور کہ ہمارے فیڈ بیک  میں بہت اچھے سے لوگوں نے اس کو محسوس کیا کہ اخوت اس وقت کی بہت بڑی ضر ورت ہے۔ مولانا ابوالحسن ندوی  نے کہا کہ میں اپ کو صرف یہ میسج دینا چاہتا ہوں کہ یہ جلسہ جلسہ نہ رہے۔
 جیسے بات کہی گئی کہ جلسہ ختم ہو یہاں سے ہمارے کام کا اغاز ہو یہ انسانیت کا کام  ہے یہ محبت کا کام ہے۔ یہ ہمدردی کا کام لوگوں کی خدمت و سیوا کا کام ہے۔ یہ کام ایسا ہے کہ دلوں کو جیتنے والا کام ہے تو اس کے ذریعے سے اپ انسانوں کو جوڑیے اور اس ملک کو جوڑیے۔
 اپ اس کو اپنی طاقت بنائیے اپ  اس کے اندر وہ اخلاق پیدا کیجیے کہ اس دنیا کو پیغام ملے یہی اس وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے اور یہ ہمارے مولانا علی میا ں صاحب کا مشن تھا اور اسی کو لے کر ہمارے بڑوں نے سفر کیا اور کوششیں کی اور انہوں نے بڑی قربانیاں دی اور اسی لیے اج یہ سب ائے۔ یہاں پر محفل  سجائی گئی اور خوبصورت اسٹیج سجایا گیا اور انتہائی خوبصورت باتیں میں نے سنی ۔
مولانا ندوی نے کہا کہ میں اج صاف کہتا ہوں جو باتیں یہاں کہی گئی ہمارے پہلے انے والے ہمارے مختلف مذاہب کے لوگوں نے جو باتیں کہیں میں نے شاید ایسی مناسب باتیں بہت کم سنی ہوں گی۔  ایک مجمع میں لوگ اتے ہیں کبھی نامناسب بات بھی ہو جاتی ہے لیکن میں سمجھتا ہوں جس نے بات کہی اور تقریبا ہر  پوائنٹ پر کہیں اسی کی ضرورت ہے تو انسانیت کو لے کر اگے بڑھا جائے ۔ 
ہر طرح کی سیاست سے اوپر ہو کر ہر طرح کے مفادات سے اوپر ہو کر ، ہر طرح کے اغاز سے اوپر ہو کر انسانیت کے ناطے ہم اگے بڑھیں گے تو یہ ملک اگے بڑھے گا یہاں کی ابادیوں میں محبت کی فکر بنے گی اور جینے کا مزہ ائے گا۔  یہی  وقت کا تقاضا ہے اور اپ اسی میسج پہ لے کر یہاں سے جائیے اور گھر گھر اس پیغام کو پہنچائیے اور کیا بعید ہے کہ یہ اواز یہاں سے لگائی جا رہی ہے میں سمجھتا ہوں کہ شاید قضا بشہرہ نہ ہو اور یہ اواز دلوں تک پہنچے اور یہاں سے مشن کا آغاز ہو۔ شہر کلکتہ تو ایک اہمیت رکھتا ہے۔ 
 یہاں سے جو تحریکات چلی ہیں۔ مجھے یاد ہے کلکتہ خلافت تحریک جو چلی اس کی قیادت گاندھی جی نے کی تھی ۔  وہ یہاں اس کا ایک مرکز تھا اور اس کے علاوہ بھی کیسی کیسی تحریکات یہاں سے چلی ہیں ۔ اج یہاں سے پیامِ انسانیت کا جو مشن ہے اپ اس مشن کو عام کریں گے،  پورے ملک کو شاید استفادہ ملے اور ایک  نیا پیغام ملے ایک نیا حوصلہ ملے اور ایک نئی زندگی ملے لیکن اس کے لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم ایک پیغام لے کر جائیں، ایک میسج لے کر جائیں ۔ میں اپ تمام لوگوں سے اس ا سٹیج پر بیٹھے ہوئے اپنے ذمہ داروں سے اور بہت قیمتی لوگوں سے کہ بات ان کے دلوں تک پہنچانا چاہتا ہوں اور میں کیا یہ بات تو بہت اوپر کی ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ بعض ان کے دلوں میں پہلے سے ہے۔  بس اس کو ایک صدا کی شکل میں لگائیں اور دلوں تک پہنچیں، گھروں تک پہنچیں، اواز یں ہر ایک شخص تک پہنچے۔  اس سے ایک نیا نظام وجود میں ائے گا اور ہمارا خوبصورت یہ ملک اس نے ہمیشہ قیادت کی ہے۔ ہمیشہ محبت کا پیغام دیا ہے۔  دوبارہ ایک پیغام کے ساتھ ابھرے گا وہ مالک ہماری ان باتوں کو قبول کرے اور ہمیں اس کی توفیق دے میں بہت شکر گزار ہوں اس پیغام کے اس سیمینار کے کرنے والوں کا خاص طور سے ہمارے دوست صبا اسماعیل صاحب جنہوں نے بڑی محنت کی اور اجلاس کے لیے ان کے دوستوں نے جو انتھک محنت کی اور سفر کیے میں ان سب کا بہت مشکور ہوں اسٹیج پہ جو حضرات ائے ہیں انہوں نے تو بہت قیمتی وقت نکالا ہے بڑے مصروف لوگ ہیں لیکن اس اہم کام کے لیے میں سمجھتا ہوں کہ ان کا انا بہت مفید ہوگا اور یہ اواز دور تک پہنچے گی میں ان سب کا بہت بہت شکر گزار ہوں  آپ سبھوں کا بہت بہت شکریہ ۔

Md Shamim Hossain 
Kolkata 700048
India 
West Bengal 
Mob 9433893761