جب توپ مقابل ہو تو اخبار نکالو:
جب ملک کا نیشنل میڈیا سماج کی نمائندگی چھوڑ کر حکومت کی دلالی،چاپلوسی پر اتر آئے تو سچ سامنے لانے کے لئے سماج بھی اپنا انتظام کر ہی لیتا ہے۔
کسان اندولن کو کچلنے کے لئے حکومت نے میڈیا کے سہارے جب غلط سلط افواہ پھیلانا شروع کیا تو کسانون نے حکومت کی سازش کو سمجھ لیا اور سمجھ یہ بھی لیا کہ ملک کی نفرتیں میڈیا نے کسان اندولن کو بدنام کرنے کے لئے سپاری لے چکی ہے تو کسان اندولن میں شریک دانشوروں نے یہ فیصلہ لے لیا کہ ایسے وقت میں ایک ایسے اخبار کی سخت صرورت ہے جو کسان اندولن سے جڑی سچی خبر کسانوں و عام لوگوں تک پہنچا سکے۔تاکہ لوگ حقیقت جان سکیں ۔
کسانوں کے ذریعے ٹرولی ٹائمز کا لانچ کوئ غیر معمولی بات نہیں بلکہ بھارتیہ میڈیا کے مونہ پر ایک بھر پور طمانچہ سے کم نہیں ۔انھوں نے اخبار کے ذریعے یہ پیغام دنیا کو تو دے ہی دیا ہے کہ جب ان کے ملک کی میڈیا نے ان کا ساتھ دینا چھوڑ دیا،حکومت سے کسان اندولن کو کچلنے کی سپاری لے لی تو مجبور ہو کر انہیں اپنا اخبار لانچ کرنا پڑا۔
خبر ہے کہ یہ اخبار صرف ۲ ہزار چھپ رہے ہیں اور اسے فی الحال ہفتے میں دو دن ہی شائع کئے جائیں گے جس کا خرچ کسان اندولن کے لوگ ہی برداشت کریں گے۔
سوال یہاں یہ نہیں کہ کسان اندولن کے لوگوں کو تمام تیاری کے باوجود اخبار لانے کا فیصلہ کیوں لینا پڑا سوال یہ ہے کہ کس نے سوچا تھا کہ وہ دن بھی دیکھنا نصیب ہوگا جب کسی مطالبے کو لے کر عوام کو نہ صرف اپنے ہی حکومت کے غلط فیصلے کے خلاف اندولن چھیڑنا ہوگا بلکہ اس کے لئے اپنا اخبار لاکر گودی میڈیا کی جھوٹ سے بھی مقابلہ کرنا ہوگا۔
مجھے نہیں پتہ بیرونی میڈیا یا بیرونی صحافی کسانوں کے اس اخبار لانچ کے بعد بھارتیہ میڈیا اور ان کے بکاو صحافیوں کو کس خانے میں رکھیں گے یا وہ کس نتیجے پر پہنچیں گے لیکن کل ہی جیسا کہ ایک امریکن صحافی نے کہا کہ کسانوں نے بھارتیہ میڈیا کے جھوٹ کو آئینہ دکھانے کے لئے جس طرح اپنے اخبار کا لانچ کیا ہے اس کا صاف پیغام یہ جاتا ہے کہ کسانوں نے نہ صرف حکومت کو بلکہ بھارتیہ میڈیا کو ننگا کر دیا ہے۔
کسان اندولن کامیاب ہو نہ ہو لیکن کسانوں نے جس طرح اس اندولن کو ایک سسٹم کے تحت جاری رکھے ہوئے ہیں وہ قابل تعریف ہے۔اور دوسری طرف جس طرح حکومت نے کسان کے خلاف کسان کو کھڑا کرنے کی سازش پر آمادہ ہے اسے دیکھ کر،سن کر تو یہی لگتا ہے کہ حکومت کی نیت ٹھیک نہیں ۔وہ اپنی خود غرضی کے تحت کسان اندولن کو شاہین باغ اندولن کی طرح کچل بھی سکتی ہے۔ورنہ بھاجپا ریاستوں کے حکمراں کسانوں کو اندولن میں شریک ہونے پر کیس درج کرنے کی دھمکی دینا شروع نہیں کرتے۔نہیں کہتے جو لوگ بھی کہیں کسان اندولن کو ہوا دیں گے ان پر کیس درج کیا جائے گا یا گرفتاری ہوگی۔
(جرنلسٹ اقبال)