نفرت کو فروغ دینے کا سستا ذریعہ ۔۔۔۔۔ کشمیر فائلز
محمد شمیم حسین۔۔۔ کولکاتا
9433893761
فلم انٹرٹینمنٹ کا ایک ذریعہ ہے۔ فلم بھائی چارگی ا ور امان و امان کا پیغام دیتی ہے نہ کہ نفرت اور تشدد کا ذریعہ بنتی ہے۔ ان دنوں کشمیری فائلز کے نام سے جو فلم گذشتہ 11 مارچ 2022 سے ریلیز کی گئی ہے۔ وہ فلم ملک کے امن و امان کو نہ صرف غارت کرنے کی کوشش ہے بلکہ اس فلم کے ذریعہ ایک خاص طبقہ کو نشانہ بنا نے کی کوشش کی گئی ہے۔ فلم کی کہانی کے ساتھ ڈائریکٹر نے انصاف نہیں کیا ہے ۔جہاں 86 کشمیری پنڈتوں کی آپ بیتی اور نسل کشی کا منظر دکھایا گیا ہے وہیں ایک ہزار سے زائد مسلمان بھی ان دنوں مارے گئے تھے۔ دہشت گردوں نے انہیں بھی اسی طرح نشانہ بنایا جس طرح سے کشمیری پنڈتوں کو نشانہ بنایا تھا۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ ملک کی فضا کو برباد کرنے کے لیے اس فلم کو بنایا گیا ہے تاکہ 80 فیصد لوگ بیس فیصد اقلیتوں سے نفرت کرے۔ ہندوستان پوری دنیا میں گنگا جمنی تہذیب کے لیے جانا جاتا ہے۔ اس ملک کی مثال پوری دنیا میں بھائی چارگی اخوات آپسی اتحاد سے دی جاتی ہے۔ ہندوستان ایک ایسا ملک ہے جہاں ہر مذہب ہر فکر کے لوگ ایک ساتھ برسوں سے بودوباش کرتے آرہے ہیں ۔ یہ ملک برسوں سے گنگا جمنی تہذیب کا گہوارہ رہا ہے۔ ہزاروں سال کی تاریخ رہی ہے کہ ہم بھائی چارگی کے ساتھ ایک دوسرے کے ہر تہوار میں ایک ساتھ نظر آتے ہیں۔ لیکن کشمیری فائلز جیسی فلم نے ملک میں منافرت کے بیج بونے کی کوشش کی ہے۔ جو کام گزشتہ 68 سال میں نہیں ہوئے وہ کام آزادی کے امرت مها اتسو کے 75 سال کے موقع پر دیکھنے کو مل رہی ہے۔ کسی ایک فرقہ کو دہشت گرد قرار دینا اچھی بات نہیں ہے۔ فلم انٹرٹینمنٹ کا محض ایک ذریعہ ہے لیکن کشمیر فائلز جو پیغام فلم کے وسیلے سے دینا چاہتی ہے ۔ اس سے ملک کے گنگا جمنی تہذیب کو بد نام کرنے کی سازش کی جا رہی ہے۔ سات آٹھ برسوں میں اس ملک میں وہ سب ہوا جو گزشتہ ستر برسوں میں نہیں ہوا تھا ۔ہندوستان کی تاریخ آزادی کے بعد جتنے بھی فسادات ہوئے ہیں ان سب میں جانی اور مالی نقصان سب سے زیادہ اقلیتوں یعنی مسلمانوں کا ہوا ہے ۔آج بھی ملک کے جیلوں میں سب سے زیادہ مسلمان قیدی آپ کو ملیں گے۔ مسلمانوں کو ہر طرح سے بد نام کر کے غیر مسلم نوجوانوں میں نفرت پیدا کی جارہی ہے۔ کبھی رام مندر کے نام پر کبھی رام نومی کے نام پر کبھی اذان کے نام پر تو کبھی کشمیر پنڈتوں کے نام پر مسلمانوں کو مجرم بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ حقیقت کے آئینے میں اگر اس فلم کو دیکھیں تو یہ فلم واقعی فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو تباہ و برباد کر رہی ہے۔ اس فلم میں جو کچھ بھی فلمایا گیا ہے ۔وہ بے حد شرمناک ہے۔ تیس سال بعد کشمیر فائلز جیسی فلم ناظرین کو کیا سبق اور پیغام دینا چاہتی ہے۔ یہ فلم اس لئے بنائی گئی ہے تاکہ ملک کے خوشگوار فضا کو ماتم میں بدلا جا سکے ۔کیا اس فلم کو بنا نے کا مقصد 2024 لوک سبھا انتخابات کے مدنظر رکھ کر بنایا گیا ہے تا کہ ایک خاص طبقہ اور فرقہ کو بھڑکانے کی کوشش کی جائے جو سراسر سنسر بورڈ کی بدترین مثال ہے۔ جس نے اس فلم کو پروموٹ کرنے کے لئے بی جے پی کے لیڈر ورکرز کو کام پر لگا دیا ہے۔ ان میں جو حادثہ کشمیر میں کشمیری پنڈتوں کے ساتھ ہوا تھا واقعی بے حد افسوسناک ہے۔ اس حادثہ میں جو ظلم و ستم کشمیر پنڈت پر کیا گیا وہی ظلم و ستم کشمیری مسلمانوں پر بھی دہشت گردوں نے کیا۔ اس فلم میں اس منظر کو بھی فلمایا جانا چاہیے تھا۔ کہ کشمیر کے مسلمانوں نے کشمیری پنڈتوں کی كس طرح مدد کی تھی۔ وہ منظر بھی اس فلم میں دکھایا جانا چاہیے تھا کہ کس طرح مسلمانوں نے اپنے کشمیری پنڈت پروسیوں کو بچایا ۔اس سے ایک مثبت پیغام ملک کے دیگر حصوں میں جاتا ۔پوری دنیا میں بھی اس فلم کو اس نگاہ سے دیکھا جاتا کہ ملک میں گنگا جمنی تہذیب کے رکھوالوں نے کس طرح ایک دوسرے کی مدد کی لیکن فلم کے ڈائریکٹر ویک اگنی ہوتر ی نے اپنے طریقہ سے اسکرپٹ تیار کیا اور فلم بنائی۔ ایسی فلم کو ہر حال میں بین کردینا چاہئے جو ملک کی سالمیت،بھائی چارگی اخوت اور اتحاد کے لیے خطرہ ہو۔ لیکن حکومت کا منشاء کچھ اور ہے۔
فلم کے ڈائریکٹر و ویک اگنی ہتری نے جان بوجھ کر ایسی فلم بنائی ہے کیوںکہ ان کا تعلق ایک ایسی تنظیم سے ہے جو ملک میں فضا بگاڑنے کا کام کرتی رہی ہے۔ دوسری طرف حکومت ہند نے اس فلم کو کئی ریاستوں میں میں ٹیکس فری کر کے فلم کو کمائی کا ذریعہ بنا دیا ہے۔ دوسری طرف نفرت کو اس طرح فروغ دیا جا سکے اس کے لئے ایک انوکھا راستہ ہموار کیا ہے ۔ دراصل اس طرح کی حرکت سے ملک میں خانہ جنگی کا ماحول تیار کیا جا رہا ہے۔ حکومت نوجوانوں کو روزگار دینے میں ناکام ہے ملک میں مہنگائی آسمان سے باتیں کر رہی ہیں ان سب سے دھیان ہٹانے کے لیے اس فلم کو ٹیکس فری کیا گیا ہے۔ لیکن پڑھے لکھے نوجوان جانتے ہیں کہ اس فلم سے ملک کو توڑنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ہندو مسلم فساد کرانے کی سازش رچی جا رہی ہے۔ جو بات گزر چکی ہے اس پر فلم بنا کر آخر کس زخم کو تازہ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اگر اس طرح کی فلمیں بننی شروع ہوئی تو آزادی کے بعد سے اب تک جتنے بھی فسادات ہوئے ہیں ہیں ان سب پر فلمیں بننی چاہیے ۔
ایک دور تھا جب خاندان، مغل اعظم، گھر سنسار،پاکیزہ جیسی فلمیں بنتی تھی۔ جو عوام کے لیے ایک میسج ہوتی تھی کہ ملک میں کس طرح رہنا ہے ۔ پر جا نیہ ،شکار ا جیسی فلمیں بنا کر ہمیں قومی یکجہتی کا پیغام دیا جانا چاہیے نہ کہ کی کشمیر فائلز بنا کر منافرت اور تقسیم کی سیاست کرنی چاہیے۔ ملک میں اگر آگ لگانی ہو تو اس طرح کی دو چار فلمیں اور بنائی جانی چاہیے مثال کے طور پر گجرات فائلز، ممبئی فائلز، دہلی فائلز، کلکتہ کیلینگ فائلز، ہاشم پورا فائلز جیسی فلمیں بننی چاہیے۔ جو اس ملک کو آگ کے شعلوں میں جھونکنے کے لئے لیے کافی ہے۔ کیا بی جے پی کو گجرات فائلز ریلیز کرنے کی اجازت دے گی کسی غیر بی جے پی ڈائریکٹر کو۔ جو حکومت پدماوتی ،مقبول فدا حسین پر روک لگا سکتی ہے ۔وہ حکومت کشمیر فائلز جیسی فلم پر روک کیوں نہیں لگا سکتے۔ یہ سب سیکورٹی کا معاملہ ہے ملک میں امن و امان بحال کرنے کا معاملہ ہے ۔حکومت کو ایسی فلموں پر خاص توجہ دینے کی ضرورت ہے جس سے تشدد برپا نہ ہو ۔ ایسی فلمیں ریلیز نہیں کرنی چاہیے جس سے کسی ایک خاص طبقہ کو نشانہ بنایا گیا ہو۔ یہ سب ایک منصوبہ بند طریقے سے کیا جا رہا ہے تاکہ کہ 2024 میں ہونے والے لوک سبھا کے انتخابات سے پہلے جن ریاستوں میں انتخابات ہونے ہیں وہاں کے وٹروں کا مزاج بدلا جاسکے۔ ویک اگنہو تر ی نے اس فلم کو بنا کر ہٹلر اور نازی کی یاد تازہ کر دی۔ وہ اتنے معصوم بھی نہیں کہ اس بات کا احساس نہیں ہے کہ یہ فلم ملک میں خانہ جنگی تشدد اور فساد کا سبب بن سکتا ہے۔ فلم کوئی بھی ہو اس کا مقصد سماج میں مثبت پیغام دینا ہے نہ کہ منفی۔ جب کوئی فساد رونما ہوتا ہے تو دونوں طرف سے انسان کا خون بہتا ہے اور انسانیت کا اسی طرح قتل سیاسی اور غیر سیاسی مفاد کے لیے کیا جاتا ہے ۔فلم کو کسی مذہب سے جوڑ کر نہیں دیکھنا چاہئیے۔ ہر قوم اور سماج میں اچھے اور برے لوگ رہتے ہیں۔ کسی ایک کو اس کا ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جانا چاہیے۔ جو زخم بھر چکے ہیں ا سے کریدنے کا کیا مطلب۔ ایسی فلموں سے سوائے نفرت کے اور کچھ عوام کو حاصل نہیں ہوگا ۔
پانچ اگست 2019 کو کشمیر کو آرٹیکل 370 کے تحت زیرِ انتظام کشمیر سے الگ علیحدہ کرکے ریاستی درجہ دے دیا گیا۔ اور اس کی خودمختاری کو ختم کر دیا گیا ۔اس ملک نے 2014 کے بعد کی تبدیلیاں دیکھی ہے ہے جو اچانک ملک کے عوام پر تھوپ دی گئی۔ رواداری اور غیر رواداری سے جو سفر شروع ہوا ہے ۔ وہ نہ صرف مب لنچنگ تک پہنچ چکا ہے بلکہ اب تو نقاب اور اذان کو بھی مسئلہ بنا کر پیش کیا جارہا ہے۔ کشمیر فائلز جیسے فلم بنا کر ملک کو نہ صرف نسل کشی کے جانب لے جانے کی راہ ہموار کی جا رہی ہے۔ حکومت اس طرح کی فلموں کی آزادی یہ سمجھ کر دے کہ اظہار رائے کی آزادی ہر کسی کو ہے تو وہ دن دور نہیں جب ہر روز فلم کے نام پر ملک اور ریاست میں فسادات کرائے جاسکتے ہیں۔ حکومت کو اس پر لگام لگانے کی ضرورت ہے ۔آنے والے دنوں میں اس طرح کے فلمیں ریلیز نہ ہو۔ یہ نہ صرف سنسر بورڈ کی ذمہ داری ہے بلکہ حکومت کے بھی ذمہ داری بنتی ہے تاکہ ملک کے امن و امان نہ بگڑے ے کشمیری پنڈتوں کا قتل کا درد جن کے سینے میں ہے انہیں چاہیے کہ پنڈتوں کو جو آج بھی در در کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں ان کی مدد کی جائے اور فلم سے ہونے والے کروڑوں روپے کی آمدنی ان پر خرچ کی جائے۔جو آج بھی اپنے ہی ملک میں پناہ گزینوں کی زندگی دہلی اور دیگر جگہوں میں گزار رہے ہیں۔ ہندوستان میں آزادی کے بعد سینکڑوں فسادات ہوئے ہیں جن میں سب سے زیادہ لوگ بٹوارے کے وقت مارے گئے۔ انیس سو اڑتالیس فساد ہو یا انیس سو چونسٹھ کا فساد یا ملیا نہ کا فساد و یا میر ٹھ کا یا حال میں ہوئے دہلی فساد پر نظر ڈالے تو اندازہ لگ جائے گا کہ ان فسادات میں سب سے زیادہ جان و مال کا نقصان اقلیتوں کا ہی ہوا ہے ۔ فلم کے ذریعہ کسی ایک طبقہ کو اس طرح ٹارگٹ کرنا ملک کو توڑنے کا کام کرنا ہے جوڑ نے کا نہیں۔ہمیں ملک جوڑنا ہے توڑنا نہیں۔ کشمیر فائلز جیسی فلم پر آگر لگام نہ دی جائے تو آنے والے وقت میں پورے ہندوستان میں کہرام مچ جائے گا اور ہر ریاست میں خون کی ہولی کھیلی جائے گی۔اگر ہم زندہ رہیں گے تو ملک باقی رہیگا ورنہ سب کچھ ویران ہو جا ئے گا پھر یہ سب کا ساتھ،سب کا وکاس اور سب کا وسوا س دھرا کا دھرا رہ جائے گا۔
shamimair786@gmail.com