Random Posts

Header Ads

Ayesa ‎Noor ‎a ‎golden ‎karate ‎girl ‎she ‎fights ‎with her poverty۔

گولڈن کرا ٹے گرل عائشہ نور اس ملک کی ایک اثاثہ ہے
 جسے اس ملک نے ایک اعزاز تک نہیں د یا

محمد شمیم حسین۔ کولکاتا


میز آئل مین اور سابق صدر جمہوریہ ہند مرحوم اے پی جے عبدالکلام نے ایک موقع پر کہا تھا کہ سپنے وہ نہیں ہے جو ہم نیند میں دیکھتے ہیں۔ سپنے وہ ہے جو ہمیں سونے نہیں دیتے۔  آج عائشہ نور نے ان کے اس قول کو سچ کر دکھایا ہے۔ کلکتہ میں جھگی جھونپڑی میں رہنے والی اس لڑکی نے وہ کام کیا ہے جو تربیت حاصل کرنے کے بعد بھی بہت سارے کرا ٹے پلیئر نہیں کر پاتے ہیں۔
مغربی بنگال  کی راجدھانی کولکاتہ کی جھگی جھونپڑی  میں رہنے والی ایک 21 سال کی بچی نے وہ کام کیا ہے جو سنہری لفظوں میں تحریر کیا جا سکتا ہے۔ 
عائشہ نور  کرا ٹے کی دنیا میں ایک ایسا نام ہے  جس  پر پورے ہندوستان كو فخر کرنا چاہیے ۔ غربت اور بیماری سے جنگ لڑنے والی اس بچی نے اپنے ملک کے لیے ورلڈ کرا ٹے چیمپئن شپ میں چار گولڈمیڈل جیت چکی ہے۔ اس کے باوجود ریاستی حکومت یا مرکزی حکومت نے اسے اب تک کسی اعزاز سے نہیں نوازا ہے ۔ وہیں امریکہ نے اس بچی پر ایک ڈاکومنٹری فلم بنا کر پوری دنیا میں اسے متعارف کروایا ۔ 
  نور غربت اور بیماری کو مات دے کر ہندوستان کے لئے چار گولڈ میڈل حاصل کی۔ مارشل
 آ ر ٹ کی دنیا میں  سیکنڈ ڈاؤن بلیک بیلٹ حاصل کی۔ وہ کسی تعارف کے محتاج  نہیں امریکہ نے اس بچی پر ایک ڈاکومنٹری فلم بنا کر اسے پوری دنیا میں متعارف کروایا۔ اس ڈاکومنٹری فلم  کو' گرلس  کنیکٹیڈ 'کے نام سے منسوب کیا  گیا۔  
2010 میں نور کے والد اس دنیا سے رخصت کر گئے۔ اس یتیم بچی کی تربیت کر ا ٹے گولڈ ماسٹر،  ایم  اے علی نے کیا ۔انہوں نے اس بچی کے لیے بہت مشقت کی  اور اسے اس لائق بنایا کہ اس نے اپنے ملک  ہندوستان کا نام روشن کیا۔
گولڈن گرل عائشہ نور گزشتہ آٹھ برسوں سے بچیوں اور عورتوں کو مفت میں تربیت دے رہی ہے۔ تاکہ یہ عورتیں اور بچّیان مصیبت کے وقت اپنی دفا ع خود کر سکے۔  جب ہم نے اس سے بات کی تو اس نے کہا  کہ دلی میں نربھیا سانحہ کے بعد ایسا لگا کہ عورتیں اور بچّیوں کو سلف ڈیفنس کے لیے آگے آنا ہوگا۔ یہی سوچ کر ہم نے مفت لڑکیوں کے لیے تربیت دینے کی سوچی۔
 عائشہ نورکرا ٹے کی دنیا میں 20 سال کی عمر میں ورلڈ چیمپئن سپ میں چار گولڈ میڈل حاصل کرکے اپنے ملک کا نام روشن کر چکی ہیں۔ 
 امریکہ کے کرا ٹے فیڈریشن نے 2018 میں "ہیرو آف جنڈ ر اقوالیٹی اینڈ  اپ وارڈز  اچیور اعزاز سے سرفراز کیا۔   کلکتہ سے شائع ہونے والا انگریزی اخبار دی ٹائمز آف انڈیا نے عائشہ نور کو 2018 میں
 ٹائمز و مین کے ا عزاز سے نوازا۔ 2019 میں میں عائشہ نو ر کو جی نیوز نے سرده ایوارڈ سے نوازا ۔
وزیراعظم نریندر مودی نے گزشتہ سال پانچ لڑکیوں کو لکشمی ایوارڈ سے نوازا تھا، جس میں عائشہ نور کا نام بھی شامل تھا ۔سابق مرکزی وزیرمینیکا گاندھی نے نور کو خواتین کا آئیڈیل قرار دیا ۔
انٹر نیشنل اسپورٹس ایوارڈ ستمبر 2019 ،مکسڈ مارشل آرٹ کونسل ( یو کے ) ني تھائی لینڈ میں دیا۔ 
افسوس کی بات یہ ہے کہ 100 سے زائد  میڈیا کوریج ہونے کے باوجود بھی عائشہ نور کو اپنے ہی ملک ہندوستان میں نہ تو کوئی کارپوریٹ فائنانس کے لئے سامنے آیا اور نہ ہی ریاستی و مرکزی حکومت نے  اس کے لیے  کوئی مالی سپورٹ کیا ۔
 آج بھی وہ ایک چھوٹے سے گھر میں زندگی بسر کر رہی ۔
 چار سال کی عمر سے وہ کر ا ٹے کی تربیت حاصل کر رہی ہے۔ اور آج وہ  ہزاروں عورتوں کو تربیت دے چکی ہےاور سیکڑوں بچیوں کو ٹرینڈ کر چکی ہے۔ 
2012۔دلی نربھیہ سانحہ کے بعد عائشہ نے ایک قسم کھائی تھی کہ کلکتہ میں ان غریب لڑکیوں اور عورتوں کو کر ا ٹے کی تربیت 
د ے گی تاکہ مصیبت کی گھڑی  میں وہ لڑکیاں اپنی دفعہ کر سکے۔
  نور آج بھی غربت سے لڑ رہی ہے ۔ عائشہ نے کہا کہ جب وہ تھائی لینڈ جانے والی تھی اس وقت اس کے پاس کچھ بھی نہ تھا۔ یہاں تک کہ کھانے کو لالے پڑے ہوئے تھے ۔ایسے میں عائشہ کی والدہ سکیلہ بیگم نے اپنا بکری فروخت کر دیا ۔گھر میں رکھا ہوا سونا فروخت کر دی ۔انہوں نے کہا کہ مقامی لوگوں سے چند ہ بھی لیاگیا اور اس کے بعد اسے تھائی لینڈ کے لیے روانہ کیا گیا۔جہاں اس نے اپنے ملک کے لئے کر ا ٹے میں گولڈ میڈل حاصل کی۔اور ملک کا نام روشن کیا۔ کولکاتا کارپوریشن  کے وارڈ نمبر 54 کے ایک مقامی کا ونسلر امیر الدین بابی نے تقریبآ 22 ہزار روپے سے اس بچی کی مدد کی تھی جبکہ انے جانے میں لگ بھگ 72 ہزار خرچ ہوا تھا۔
 بیٹی بچاؤ بیٹی پڑھاؤ  نعرہ سننے میں تو بہت اچھا لگتا ہے۔ لیکن وہی بیٹی جب گھر میں غربت کی زندگی گزار رہی ہو، تو نہ تو وہ پڑھ سکتی ہے اور نہ ہی زندہ بچ سکتی ہے ۔ایسے میں حکومت کو یا ان لیڈروں کو سامنے آنا چاہیے جو ایسی بچیوں کی مدد کریں تاکہ وہ اپنا نام ملک میں ر وشن کر سکے۔ 
 2012میں عائشہ نور نے پہلی بار  بنکاک میں گولڈ میڈل حاصل کیاتھا۔  کلکتہ کے پارک اور میدان میں ان  غریب عورتوں اور بچیوں کو جو اسکول یا کالج  یا تنہا آ فس یا کام کرنے گھر سے باہر جاتی ہیں ۔مصیبت آنے پر اپنا دفاع خود کر سکے۔ اس لیے وہ مفت میں ان عورتوں اور لڑکیوں کو کرا ٹے کی تربیت دیتی ہیں۔ تاکہ یہ لڑکیاں   بے خوف ہو کر کہیں بھی آ جا سکے اور انہیں کسی خوف اور ڈر کا کا احساس نہ ہو۔ 
 اس چھو ٹی سی  بچی نے وہ کارنامہ انجام دیا ہے جو واقعہ ہمیں ایک سبق دیتی ہے۔  ایک  طرف ایک بیمار بچی اپنی بیماری سے لڑتی ہے اور اس کے بعد وہ دوسری عورتوں کی تحفظ کے لئے ایک لاحہ عمل تیار کرتی ہے۔ تاکہ وہ اپنا بھی حفاظت کر سکے اور دوسری بچیوں کے لئے بھی ڈھال بن سکے ۔ 
عائشہ کا کہنا ہے کہ میں اس وقت شیرنی بن جاتی ہوں جب میں کرا ٹے سکھاتی ہو ں۔ انٹرنیشنل کر ا ٹے میں ان کو کئ  اعزات سے نوازے  جا چکے ہیں۔ہندوستان میں پہلی بار ممبئی میں  2013 اور 15 20 میں عائشہ نے گولڈ میڈل اپنے ملک کے لیے جیتا تھا

 دہلی امریکن سینٹر میں 17 مارچ 2017 کو ہیرو آف جینڈر عقوالٹی سے انہیں نوازا گیا ۔ دور درشن پر اور آئی ٹی وی   نے پوری دنیا میں ایک ڈاکومنٹری فلم عائشہ پر بنائی اور ٹیلی کاسٹ کیا جسے 
" کنیکٹیڈ گرل "کے نام سے موسوم کیا  گیا۔ سینٹ ز یو ر س کالج شعبہ ما س کوم نے ایک فلم عائشہ نور پر بنائیں۔
 جی آئی ایف  ایف اے ایورڈ  سے فلم کو نوازا گیا۔

حیرت کی بات ہے کہ کسی طرح کا سرکاری تعاون اس کرا ٹے پلیئر کو  اب تک نہیں ملا۔ 
 پرائیویٹ ڈ ونر اور بابہی خواہ سامنے آئے اور مدد کی ۔2013 میں بینکا ک  جانےکے لیے ایک پرائیویٹ چینل نے اس خاتون کھلاڑی کو مالی سپورٹ کیا تھا۔اور وہ بینکا ک جاکر اپنے ملک کے لئے گولڈ میڈل حاصل کی۔
 
 اکیس سال کی عائشہ نور 3 گولڈ میڈل نیشنل کرا ٹے  چمپین  شپ میں جیت چکی ہیں۔ تھائی انٹر نیشنل یوتھ چیمپیئن 2013 میں تھائی لینڈ  میں وہ جاپانی خاتون کھلاڑی کو شکست دے کر گولڈ میڈل حاصل کی۔ عائشہ نور دو بار نیشنل چیمپئن رہ چکی ہے۔ 2011 اور 2012میں
 اس نے اپنے والد کو 2010 میں کھو دیا  جب اسکی عمر محض  گیارہ سال تھی ما ں شکیلہ بیگم اس لائق نہیں تھی کہ وہ کرایہ کی رقم دے پا تی ۔ انہوں نے عائشہ نور کے کوچ ایم اے علی کا شکریہ ادا کیا ۔جنہوں نے ایک باپ کی طرح شفقت کے ہاتھ اس کے سر پر رکھا۔ تربیت کے دوران کئی بار اس کے ساتھ ایسے حالات پیدا ہوئے  جب وہ اچانک بہوش ہو جاتی۔و ہ جس مرض کی شکار تھی ۔اس مرض کو میڈیکل زبان میں"Epheleptic Sei zures "کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اپنی علاج ایک اچھے اور قابل ڈاکٹر سے نہیں کر ا سکتی کیونکہ اس کے پاس اتنی رقم نہیں ہے۔
 وہ جس ر یاست میں رہتی ہے۔ اس ریاست میں ہزاروں
 ر جسٹرڈ کلبوں کو ہر سال دو لاکھ روپے دیے جاتے ہیں ۔وہیں عائشہ نور جیسی بچی ایک ایک پیسے  کی محتاج ہے۔ نہ تو وہ ٹھیک سے کھانے پینے پہ دھیان رکھتی ہے۔ نہ ہی اس کی بالیدگی سہی سے ہو رہی ہے۔گھریلوں مالی حالت ٹھیک نہ ہونے کی وجہ سے۔ لیکن وہ اپنی دھن کے اتنی پکی ہے کہ ہر روز وہ نہ صرف اپنی پریکٹس کرتی ہے بلکہ کبھی کبھی وہ بھو کی رہ کر بھی پابندی کے ساتھ دوسروں کو بھی تربیت دیتی ہے ۔
ملک کے لئے یہ لڑکی ایک اثاثہ ہے۔لیکن کسی کو اسکی پرواہ نہیں۔خواہ حکومت ہو یا انڈین کرا ٹے فیڈ رشن یا NGO's کوئی بھی  نور کے لئے مدد کرنے سامنے نہیں آ رہا ہے آخر کیوں یہ  ایک سوالیہ نسان ہے ۔آخر حکومت کب جا گے گی۔جس ریاست میں یہ خاتون کھلاڑی رہتی ہے ۔وہاں کی وزیر اعلیٰ بھی ایک خاتون ہے۔ آخر انکی نظر اس کھلاڑی پر کیوں نہیں جاتی۔جس نے اپنی ریاست کے لئے ہی نہیں ملک کے لئے قومی اور بین الاقوامی سطح پر گولڈ میڈل حاصل کی ہے۔
تحریر : محمد شمیم حسین کولکاتا ۔انڈیا 919433893761+